سندھ دھرتی کو مبارک ہو (آخری حصہ)

حسین مسرت  اتوار 24 اگست 2014

اس سے شعور اور علم حاصل کرنے کے لیے جو کوششیں کی جاتی ہیں ان کے آگے رکاوٹیں ڈالنا پوری انسانیت کے لیے ظلم ہوگا۔ شعورکو روکنا ظلم ہے۔ علم پر، ذہنی بالیدگی پر ہر انسان کا حق ہے۔ جویو صاحب نے اپنی فکر سے بہت سارے ذہنوں کی آبیاری کی ہے۔

شیخ ایاز جیسے مایہ ناز مفکر اسکالر، شاعر، ادیب، نقاد بھی ان کی قابلیت کو مانتے ہیں، شیخ ایاز اپنی سوانح عمری میں ذکر کرتے ہیں کہ سندھی شاعری کی طرف جویو صاحب نے ہی ان کو اکسایا تھا۔ وہ کہتے تھے ایاز تبدیلی لانے کے لیے ہم دو ہی کافی ہیں۔

جویو کا طرز فکر ہمیشہ مثبت رہا ہے۔ وہ غیر تکراری رہے ان کی فکر میں  تسلسل ہے۔ وہ سکھاتے ہیں کہ کیا سوچیں اور کیسے سوچیں اور اپنی سوچ کو لفظوں کی شکل میں ڈھالنے کا فن تو کوئی جویو سے سیکھے۔ ان کے لفظوں کی جادوگری، خیال کی وسعت، فکر کی گہرائی آنے والی ہر صدی کے لیے چیلنج ہیں ۔ انسانی سماج کا بننا، اس کے مسائل، عوام اور ریاست کے تعلقات، ریاست کا بنیادی ڈھانچہ، عوام کے حقوق شہری حقوق، قومیت کا تصور، مادری زبان کی اہمیت یہ سب باتیں انھوں نے اپنی شاہکار کتاب “Save Sindh Save Continent” میں 1947 میں لکھی تھیں۔

سندھ میں موجود جاگیرداری نظام کس طرح عام آدمی کو کچلتا ہے اور جاگیرداری سماج کی تشکیل کی جڑیں کہاں سے شروع ہوئیں اصل میں سندھ کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ سندھ کے تاریخی پس منظر کو منظر عام پہ لاتے ہیں۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کو اگر تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے تو سندھ کی نوجوان نسل کے شعور اور فکر کے دروازے کھل جائیں گے۔ فکر انگیز کتاب میں جو کچھ لکھا گیا جن خطرات سے آگاہ کیا گیا وہ اسی طرح پیش آئے۔ جویو صاحب نے نہایت عرق ریزی سے انگریزوں کے سندھ پر قابض ہونے کی تاریخ بیان کی ہے۔ یہ بھی واضح کیا ہے کہ سندھ پر ہونے والے حملے صرف مذہب کے لیے نہیں بلکہ اس خوشحال خطے کو حاصل کرنے کے لیے تھے۔

جویو صاحب نے سندھ کے جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کو بھی واضح کیا ہے۔ قومیت کا تصور اور قومیت کی شناخت پر بحث کی ہے قوموں کی بربادی فرقہ واریت سے شروع ہوتی ہے ایک جگہ لکھتے ہیں ’’فرقہ واریت ایک پل کے لیے کیوں نہ ہو وہ سیاست اور مذہب دونوں کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ فرقہ واریت اپنے جوہر میں مطلق العنان ہوتی ہے، وہ مختلف اور امتیازی قوموں کو نچوڑ کر بے جان کردیتی ہے۔ وہ تاریخ کے اصولوں کے منافی ہے اور معاشیات، سماجیات کے اصولوں کے منافی ہے۔‘‘

فرقہ واریت سے بچنے کے اصول اور چند تجویزیں انھوں نے حکومت، ریاست کی مضبوطی کے لیے بھی دی ہیں۔ جویو صاحب نے ایسے اصول بتائے ہیں کہ وہ سیاست دانوں، قانون دانوں، معیشت دانوں، تعلیم دانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ریاستی ڈھانچے سے لے کر قانون سازی، تعلیمی پالیسیوں صحت کی پالیسیوں پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

وہ محنتی، پرجوش، نہ تھکنے والا، سوچنے والا جوکہ جاگتی آنکھوں میں خواب لیے گھومتا ہے اس نے ہمیشہ ذہنی وسعت اور شعور کی بات کی ہے۔ عام انسان اپنے معاشرے میں تبدیلی تب لاسکتا ہے جب وہ جاگیرداروں کے اثر سے نکل کر اپنی عزت آپ کرنا سیکھ لے۔ انسان کی شناخت کا سفر اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ اپنی ذات کو سمجھنا اور اپنی سوچ کا اظہار کرنا ہی تبدیلی کی طرف قدم ثابت ہوتا ہے جویو کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اس کی ہمت بڑھانے کا سبب بنے سرکاری نوکری کے دوران مذکورہ کتاب کے لکھنے کی پاداش میں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے لیکن وقت نے یہ ثابت کردیا کہ یہ کتاب پوری ریاست، سندھ اور برصغیر کی بہتری کے لیے لکھی گئی تھی۔

ایسی انقلابی کتابیں جو شعور کے در وا کریں، ہمیشہ پابندیوں کا شکار بنتی ہیں۔ ہمارے ادیب شاعر نے بھی شعور اور فکر کی آزادی کا نعرہ مارا  اور وہ زیرعتاب آیا۔ سندھ اپنے دانشوروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، یاد رکھتا ہے، عزت دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھنے کا ایک طریقہ شعوری تسلسل ہے وہ شعور جو ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو ۔ وہ سلسلہ کچھ ٹوٹتا سا محسوس ہوتا ہے۔ جویو کہتے ہیں کہ ’’سچ طاقت کے ذریعے نہیں پھیلتا۔ سچ اپنے وکیل خود ڈھونڈتا ہے اور اپنے سپاہی صرف اپنے موروثی گن یا خوبی  ذریعے جمع کرتا ہے۔‘‘ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں ’’مطلق العنانی اور جبر کے خلاف بغاوت کا حق مقدس ہے۔‘‘

جبر کسی بھی صورت میں ہو اس کے خلاف آواز بلند کرنا، جھگڑنا، جدوجہدکرنا، انسانیت کی پہچان ہے۔ ’’عورت زاد‘‘ نام کی کتاب میں وہ ’’عورتوں کی تحریک‘‘ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریک کو عورت زاد کا نام دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جاگیردار سماج تبدیل ہوگا تو ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بیویاں، محبوبائیں سب آزاد ہوں گی تو معاشرے سے نفرت اور فاصلے مٹ جائیں گے۔

شعور سب کے لیے ہے جدوجہد کے راستوں میں چلنے والوں میں وہ تفریق نہیں کرتے مرد اور عورت کے برابر حقوق کی بات کرتے ہیں۔ جویو سیکھتا بھی ہے سکھاتا بھی ہے لکھتا بھی ہے اور لکھنا سکھاتا بھی ہے۔ شہرہ آفاق کتاب ’’شاہ سچل سامی‘‘ لکھ کر انھوں نے بتایا ہے کہ ادبی تاریخ کس طرح لکھی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔