قربانی عوام کی اور تخت۔۔۔۔۔

پروفیسر سیما سراج  منگل 26 اگست 2014

مقامی اخبار میں خبر شایع ہوئی کہ شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔ اماں نے سنتے ہی ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگیں کہ ہمارے زمانے میں کراچی کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں۔ یا دھوئی جاتی تھیں۔ ہمیں یقین تو نہیں آیا مگر چونکہ اماں نے کہا اس لیے یقین کرنا پڑا۔ بھلا اماں کو جھوٹ بولنے سے کیا فائدہ۔ ویسے بھی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے چلیں مان لیتے ہیں۔ لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ہم نے اسی بے پاؤں کے جھوٹ کو شعبہ سیاست میں نہ صرف چلتے ہوئے بلکہ دوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔

خیر جہاں تک دیکھنے کی بات ہے تو ان آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ لیکن ہر بات بتانے والی نہیں ہوتی۔ اور بات جب چھپائی جاتی ہے تو تجسس بڑھ جاتا ہے ویسے تجسس کا اپنا مزہ ہے خیر مزہ تو شوشہ چھوڑ کر بھی آتا ہے پوری قوم اس شوشے کے پیچھے لگ جاتی ہے قطار میں ہم ایک دوسرے کے پیچھے لگیں یا نہیں لیکن ہمیں شوشوں میں ایک دوسرے کے پیچھے لگنا خوب آتا ہے۔ دوستی نہ سہی دشمنی ہی سہی کوئی تو رشتہ ہو اور رشتہ حسب ضرورت جوڑنے اور توڑنے کا سلیقہ ہمیں خوب ہے۔ خوب تو ہمارے لوگ بھی ہیں ایک ذرا چھیڑنے کی دیر ہوتی ہے پھر دیکھیے۔

کیا کیا دیکھیں گے اب تو وہ کچھ دیکھ رہے ہیں کہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اللہ نہ دکھائے۔ ہاں اللہ نہ دکھائے وہ دن جب شرفا کی پگڑیاں اچھالی جائیں اور غیر شرفا آنکھوں پر بٹھائے جائیں۔ یہ اٹھک بیٹھک کا کھیل بھی خوب ہے۔ جب جس کو چاہا اٹھا دیا اور جب جس کو جی چاہا بٹھا دیا۔ بھئی عزت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ معلوم نہیں یہ کھیل ہے یا سزا۔ کھیل ہی کھیل میں ہم تو ایسا کھیل کھیل جاتے ہیں کہ تماش بینوں کو پتہ ہی نہیں چلتا۔

صاحب الیکشن میں لوگ کھڑے ہوتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ کرسی پر لوگ بیٹھتے ہیں۔ اور اٹھا دیے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست تو کرسی کی بدنامی سے اتنا ڈرے کہ انھوں نے گھر کی تمام کرسیاں بیچ کر صوفے خرید لیے۔ چلیں آپ کو بتادیں کہ وہ کرسیاں ہم نے خرید لیں۔ بلا سوچے سمجھے کہ کام کی بھی ہیں یا نہیں۔ خیر اگر بے کار اور عام سی بھی ہے تو صرف نہیں پڑتا۔ کیونکہ بھئی کرسی تو کرسی ہے معمولی ہو یا قیمتی۔ یہ ہمارا نظریہ ہے ضروری نہیں کہ آپ اتفاق کریں۔

جہاں تک اتفاق کا تعلق ہے تو یہ قوم سے ختم ہوتا جا رہا ہے ، رہے گا نظریہ تو ہم ایک دوسرے کے نظریے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ اپنا نظریہ دوسرے پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے جب اتفاق نہیں ہوتا تو اتفاق رائے بھی نہیں ہوتا ، اختلاف رائے البتہ ضرور ہے۔ اور اس قدر شدید کہ ہم تمام اخلاقی حدود پھلانگ جاتے ہیں۔

تہذیب کے معنی معلوم نہیں۔ مہذب معاشرے کا مفہوم نہیں جانتے رہ گیا معاملہ تعلیم کا تو شک ہوتا ہے کہ واقعی ہم تعلیم یافتہ ہیں؟ پہلے تعلیم و تربیت ایک ساتھ ہوتے تھے اب تعلیم ہے مگر تربیت نہیں اب وہ مشترکہ خاندانی نظام ہی نہیں رہ گیا۔ جہاں نانی، دادی اخلاقی کہانیاں سنایا کرتی تھیں اور بچے بہت کچھ سیکھ جاتے تھے۔ نہ ہی نانی دادی رہ گئیں اور نہ ہی اب وہ کہانیاں۔ اب تو جرائم سے بھرپور کہانیاں ہیں یا ڈرامے۔ جب ہی تو بچے مہنگے کھلونا پستول خریدنے کی ضد کرتے ہیں۔ اور کھیل ہی کھیل میں اپنے دوستوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ بچپن کا یہ کھیل بڑے ہوکر کیا رنگ اختیار کرے گا سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔

دل کا کیا ہے خواہش کرتا ہے کہ ایک دن کی بادشاہت مل جائے۔ اور اگر جمہوریت ہو تو حکومت مل جائے۔ تو پورا نظام بدل دوں۔ بھلا ایسا کہاں ممکن ہے۔ نظام سقہ نے تو سکہ چلایا تھا ہم تو خود ہی چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ صدیوں پرانا نظام بھلا دنوں میں کیسے بدلا جاسکتا ہے؟ اگر آپ کے پاس جادو کی چھڑی ہے تو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سعادت حسن منٹو نے ’’نیا قانون‘‘ ایسے ہی تو نہیں لکھا تھا۔ بے چارہ معصوم مرکزی کردار ’’منگو‘‘ قابل رحم۔

قابل رحم تو عوام بھی ہیں۔ پھولوں جیسے خواب، شعلوں جیسی تعبیر۔ قربانی عوام کی اور تخت خواص کا۔ تخت اور تختہ چھوڑو بھی یہ کونسی بحث ہے۔ بحث کے لیے بہت سے موضوعات ہیں لیکن اب تو بحث و تکرار کے آداب بھی بدل گئے ہیں۔ بس اپنی کہو دوسرے کی نہ سنو۔ اتنا چیخ چیخ کر بولو کہ دوسرا خود ہی خاموش ہوجائے۔ میزبان اتنا بولتا ہے کہ مہمان کو موقع ہی نہیں ملتا۔ موقع سے یاد آیا۔ ہم میں سے ہر شخص موقع کی تلاش میں رہتا ہے جب جس کو موقع مل جائے۔ ہاتھ صاف کرنے کے لیے تیار۔ ہاتھوں کی صفائی تو کوئی ہم سے سیکھے ویسے مکمل طور پر ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس کے ہاتھ مکمل صاف ہوں۔

ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہاتھوں کی صفائی تو کوئی ہم سے سیکھے۔ ویسے سیکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر مسئلہ یہی ہے کہ ہم سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ورنہ تاریخ سے کب کا سبق سیکھ چکے ہوتے۔ انا کی جنگ سے ہی فرصت نہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ زباں و بیاں اس قدر اعلیٰ کہ شرافت منہ چھپائے پھرے عادت سی ہوگئی ہے کہ اصل موضوع سے بہت دور چلے جاتے ہیں مثلاً

بات چلی تھی کراچی کی سڑکوں سے اتنا تو ہمیں بھی یاد ہے گھروں کے سامنے گلیوں میں سڑکیں صاف ہوتی تھیں، گرمی کے موسم میں بچے آرام سے رات کو اسٹریٹ لائٹ میں کھیلتے۔ نوجوان پڑھتے اور بوڑھے پلنگ بچھا کر باتیں کرتے۔ ٹریفک اتنا زیادہ نہ تھا۔ قریب کے راستوں کے لیے سائیکل استعمال ہوتی۔ اسی لیے صحت بھی اچھی رہتی۔

سہولتیں کم تھیں اور سکون زیادہ تھا۔ اب تو ہر طرف شور ہی شور ہے۔ اب تو شور کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ خاموشی میں دم گھٹتا ہے۔ کہیں کوئی طوفان تو نہیں آنے والا۔ طوفان آتا ہے تو بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اور صرف ویرانی باقی بچتی ہے۔ آبادیاں برباد ہو جاتی ہیں۔

کچھ حادثے قدرتی ہوتے ہیں اور کچھ حادثوں کو ہم خود دعوت دیتے ہیں۔ انجام سے بے خبر۔ اگر انجام کی فکر ہوتی تو اعمال ایسے نہ ہوتے۔ دانشور آغاز سے انجان کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ اب تو ہر ایک دانشور بنا پھرتا ہے۔ دانشور ہونے اور بننے میں بڑا فرق ہے۔ کاش ہم اس فرق کو محسوس کرسکیں۔ تو ہم اس فرق کو بھی سمجھ جائیں گے جو ہمارے آج اور کل میں ہے۔

کاش ہم اپنے کل کی روشنی میں آج کے خطرات کو محسوس کر سکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لیں اور خطرات ہمیں اسی طرح گھیر لیں کہ بند گلی کے مسافر بند گلی میں ہی کہیں کھو جائیں اور ان کے نشان ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم خود بھی کہیں کھو جائیں۔ پھر باقی کیا بچے گا۔۔۔۔ کبھی سوچا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔