فلسطینی مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی…

حشمت اللہ صدیقی  منگل 26 اگست 2014

غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ایک قیامت گزر گئی، مسلسل بمباری سے معصوم بچے، خواتین و بزرگوں کی بے گور و کفن لاشیں نوحہ خواں ہیں کہ آج امت محمدی میں کوئی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم نہیں جو ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کو پہنچے آج 56 اسلامی ملکوں پر مجرمانہ بے حسی طاری ہے اقتدار کی مصلحتوں نے منافقت کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔

عالمی ضمیر نے اسرائیل جیسے سفاک دشمن اسلام و مسلمان کی وحشیانہ درندگی جو اس نے غزہ میں جاری رکھی ہوئی ہے اس پر چپ سادھ رکھی ہے اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتیں فلسطین میں خون مسلم پر خاموش تماشائی ہیں آخر کو یہ عالمی سپرپاور حکومتیں فلسطین کے مظلوموں کے قتل عام کے سلسلے کو کیوں ختم کرائیں فلسطین کا مسئلہ کیوں کر حل کرائیں۔

اصل مسئلہ تو انھیں قوتوں کا پیدا کردہ ہے ان ہی کی باہمی سیاست، منافقت و دھوکا دہی نے اسرائیل جیسی ناجائز ریاست قائم کر کے سرزمین عرب کے سینے میں خنجر پیوست کیا ہے جو آج ایک رستا ہوا ناسور بن گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مفادات کے اس کھیل میں بعض عرب حکومتوں کے مفادات بھی شامل ہو گئے ہیں جس کی قیمت فلسطین کے بے گناہ نہتے مسلمان اس کے قیام سے ہی بھگت رہے ہیں فلسطینی مسلمانوں کے اپنے حق کے لیے جذبہ جرأت و جہاد کو کچلنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ چند ’’اپنے‘‘ بھی ہیں جن کے مفادات عالمی طاقتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔

آج دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات اسرائیلی درندگی پر بھڑک اٹھے ہیں وہ سراپا احتجاج ہیں لیکن حیرت ہے کہ عرب دنیا میں کوئی قابل ذکر احتجاج و بیداری نظر نہیں آتی جب کہ خود امریکا برطانیہ دیگر مغربی و یورپی ممالک میں بھی اسرائیل کی جارحیت کے خلاف زندہ ضمیر رکھنے والے غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں وہاں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

حال ہی میں برطانیہ کی سعیدہ وارثی نے استعفیٰ دے کر انسانی عظمت و جذبہ حق پرستی کا شاندار مظاہرہ کیا ہے جو کہ مسلم حکمرانوں کے لیے سوچ و فکر کی نئی راہیں متعین کرتا ہے کہ وہ بھی اب بیدار ہو جائیں پاکستان جو کہ اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن یہاں کے حکمراں بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں لیکن یہ بات باعث اطمینان و خوش آیند ہے کہ حکمراں سو رہے ہیں لیکن عوام جاگ گئے ہیں عوام جو اسلام سے گہری عقیدت رکھتے ہیں انھوں نے ہمیشہ حکومتی مصلحتوں و مفاد کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کشمیر، افغانستان اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں سے ہر سطح پر اظہار یکجہتی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان کے غیور و دینی حمیت رکھنے والے عوام نے کھل کر اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے آج بھی ملک بھر میں غزہ کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی کے لیے میدان میں موجود ہیں کوئی طاقت، مفاد یا سیاست انھیں مظلوم مسلمانوں کی حمایت و تائید سے روک نہیں سکتی۔ دینی سیاسی جماعتوں نے ’’غزہ ملین مارچ‘‘ یا ’’غزہ لبیک‘‘ کے نام سے مظلوموں سے یکجہتی کے لیے جو پروگرام بڑے پیمانے پر ترتیب دیے ہیں وہ قوم کے جذبہ ایمانی کی ترجمانی کرتے ہیں قوم بیدار ہے۔

اس موقعے پر عمران و قادری کی حالیہ تحریک مناسب نہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنا احتجاج و تحریک موخر کر کے اپنے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کے احتجاج کا ساتھ دیں جو کہ ہماری دینی حمیت کا تقاضا ہے یاد رکھیے ہماری مجرمانہ خاموشی کی سزا ہمیں کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملے گی۔

اللہ تعالیٰ مظلوم، نہتے و ظلم کا شکار مسلمانوں کی مدد کے لیے ہمارے جذبہ جہاد کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ (ترجمہ) ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے، حالانکہ کتنے ہی بے بس مرد ہیں، کتنی ہی عورتیں ہیں، کتنے ہی بچے ہیں فریاد کر رہے ہیں‘‘ خدایا ہمیں اس بستی سے جہاں کے باشندوں نے ظلم پر کمر باندھ لی ہے‘‘ نجات دلا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا کارساز بنا دے اور کسی کو ہماری مددگاری کے لیے کھڑا کر دے‘‘ (سورۃ النساء) اس کے ساتھ ہی خاتم النبین، محسن انسانیت، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’مسلمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب و بے آرام ہو جاتا ہے‘‘ (متفق الیہ۔ مشکوٰۃ)۔

لہٰذا اس فرمان کے لحاظ سے امت مسلمہ کا ہر فرد خواہ دنیا کے کسی خطے میں ہو اسلام کے نزدیک جسد واحد کی مانند ہے لہٰذا امت مسلمہ پر اللہ اور اس کے رسولؐ کے فرمان کے مطابق یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم بے بس مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہے اسلامی ممالک کے عوام اگر متحد ہو کر اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارے حکمراں بھی خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور صرف ’’یوم فلسطین‘‘ منانے تک خود کو محدود نہ کریں۔

حکومت نے 17 اگست کو ’’یوم فلسطین‘‘ سرکاری سطح پر منایا، حکومتوں کے پاس اقتدار، فوج، سفارت و دیگر طاقت کے ذرایع ہوتے ہیں ایام منانا، ریلیاں نکالنا، مظاہرہ کرنا تو دینی سیاسی جماعتوں اور عوام کا کام ہے جمہوری نظام میں یہ سرگرمیاں عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے کے لیے بہترین پرامن ذرایع ہیں جس کا مظاہرہ ہمارے عوام کر رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ سفارتی ذرایع سے عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل کی وحشیانہ درندگی سے آگاہ کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر کے اسرائیل کو لگام دینے کے لیے عالمی قوتوں کے ضمیر کو بیدار کرے۔

او آئی سی کا فوری اجلاس بلانے کے لیے حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے جس میں فلسطین کے مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے فوری نوعیت کے اقدامات اٹھائے جائیں حکمرانوں کو اب بیانات کے بجائے حوصلہ و جرأت کا مظاہرہ کرنا ہو گا ہمیں سپر پاور و مادی طاقت کے آگے سرنگوں ہونے کے بجائے ظلم کی قوتوں سے ٹکرانے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ آج غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے آگے آنے کی جرأت و جذبہ ایمانی کی ضرورت ہے ورنہ

جو چپ رہے گی زبان خنجر

لہو پکارے گا آستیں کا

فتح ہر قیمت پر مظلوموں کی ہو گی کیونکہ اللہ کی مدد و نصرت ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ ہوتی ہے۔ مظلوموں کی حمایت میں گھروں سے نکل آئیے اور غزہ کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی کر کے اپنے جذبہ دینی کا ثبوت دیجیے اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔