وفاقی دارالحکومت کی صورتحال پر عسکری قیادت کے تحفظات

 بدھ 27 اگست 2014
غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو گزشتہ 13 روز میں ڈاکٹر طاہر القادری کو مختلف معاملات میں عمران خان پر سبقت حاصل ہے۔  فوٹو : فائل

غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو گزشتہ 13 روز میں ڈاکٹر طاہر القادری کو مختلف معاملات میں عمران خان پر سبقت حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

لاہور: پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے۔

13 روز کے دوران حکومت نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اسے ان دھرنوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں نے حکومت کی بنیادوں کو اتنا کھوکھلا کر ڈالا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں کے دوران اقتدار کا محل زمین بوس ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

11 مئی 2013 ء کے الیکشن کو پاکستانی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ الیکشن سے قبل کی میڈیا کوریج کا جائزہ لیں تو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹرنگ افسروں سے ملاقاتوں اور اجتماعی خطابات کا ریکارڈ موجود ہے جو عمران خان کے الزامات کو تقویت دیتا ہے۔ سابق چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس اختیار نہیں تھا اور چیف جسٹس تمام معاملات دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری کے بیانات بھی موجود ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 2013 ء کا الیکشن درحقیقت آراوز کا الیکشن تھا۔

چند روز قبل ریٹائرڈ ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے بھی الیکٹرانک میڈیا میں نمودار ہو کر الزامات اور انکشافات کا نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ ان کے الزامات و انکشافات کو اہمیت دینا اس لئے ناگزیر ہے کہ وہ 2013 ء کے الیکشن کروانے میں شامل تھے اور ان کا عہدہ چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بعد سب سے اہم تھا۔

میڈیا میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی وہ رپورٹس بھی منظر عام پر آگئی ہیں جس میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پنجاب الیکشن کمیشن نے عام انتخابات سے صرف دو روز قبل یعنی کہ 9 مئی کو ’’ایمرجنسی‘‘ ڈیکلئر کر کے لاکھوں بیلٹ پیپر غیر سرکاری پرنٹنگ پریس سے شائع کروائے تھے۔ حالات بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین جو کہ ’’مقتدر‘‘حلقوں کے نبض شناس ہیں انہوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوتا دیکھ رہا ہوں۔

منگل کی صبح آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے اہم ملاقات کی ہے۔ ون آن ون ملاقات کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر جاری ہونے والی فوٹیج کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ دونوں شریفوں کے چہروں کے تاثرات اور ان کی باڈی لینگوئج چیخ چیخ کرملاقات کی’’اصل‘‘ داستان بیان کر رہی تھی۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں کے مطابق پاک افواج کو ملک کی سیاسی صورتحال پر شدید تشویش ہے جس کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر اپنے ایک بیان میں کر چکے ہیں۔

افواج پاکستان اس وقت شمالی وزیرستان میں اہم ترین آپریشن میں مصروف ہیں اور اس آپریشن میں انہوں نے انتہائی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں ایسے میں اگر اسلام آباد میں حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو افواج پاکستان کو اپنی پوزیشن لینا ہوگی ۔ عسکری حکام کسی صورت وفاقی دارالحکومت میں خونریز تصادم نہیں ہونے دیں گے۔

مسلم لیگ (ن) جان چکی ہے کہ اقتدار کی ریت ان کی مٹھی سے پھسل رہی ہے اسی لئے شاید وہ مستعفی ہونے کی بجائے سیاسی شہید ہونے کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ حالیہ بحران کے دوران وزیر اعلی میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی آرمی چیف سے یکے بعد دیگرے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی کوئی ’’یقین دہانی‘‘ نہیں کروائی گئی ہے۔

تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے جواب میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی استحکام پاکستان ریلیاں کسی بھی وقت انارکی کا سبب بن سکتی ہیں ۔ لاہور میں بھی ایک بڑی ریلی نکالی گئی مگر اس ریلی کے حوالے سے غیر جانبدار ذرائع بھی یہ کہتے ہیں کہ اس میں چھوٹے درجے کے ہزاروں سرکاری ملازمین کو شامل کیا گیا تھا ۔ اسلام آباد دھرنے میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کفن لہرا کر غسل شہادت کا اعلان کر کے پوائنٹ آف نو ریٹرن کو عبور کر لیا ہے۔

وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاون کے چند گھنٹے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی تحریک اگر میرے خلاف بھی اس واقعے کا مقدمہ درج کروانا چاہے تو مقدمہ ضرور درج ہوگا مگر آج تک یہ مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔ جسٹس(ر) باقر اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹس نے بھی پنجاب حکومت کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اندراج مقدمہ کے حوالے سے بہت خوفزدہ ہے کیونکہ اگر یہ مقدمہ درج ہو جاتا ہے تو پھر آنے والے وقت میں اس مقدمہ کی بھینٹ کون ،کون چڑھے گا اس کا سب کو علم ہے۔ رانا ثناء اللہ اور توقیر شاہ کی ’’قربانی‘‘ بھی رائیگاں چلی گئی ہے ۔ عوامی تحریک سانحہ ماڈل ٹاون کا سب سے بڑا مجرم وزیر اعلی میاں شہباز شریف کو قرار دیتی ہے۔ اسلام آباد کے حلقوں میں یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنا استعفی لکھ کر بڑے بھائی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حوالے کر دیا ہے جو کہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوامی تحریک سانحہ ماڈل ٹاون کے مقدمہ میں سے میاں شہباز شریف کا نام واپس لے۔

غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو گزشتہ 13 روز میں ڈاکٹر طاہر القادری کو مختلف معاملات میں عمران خان پر سبقت حاصل ہے۔ عمران خان بہت پر امید تھے کہ وہ کم ازکم 4 سے 5 لاکھ آدمی لے کر ڈی چوک پہنچیں گے۔

زمان پارک سے لے کر راوی کا پل عبور کرنے تک حالات کچھ یہی ثابت کر رہے تھے کہ لاکھوں کا قافلہ ہوگا مگر جیسے ہی لاہور کی حد ختم ہوئی مارچ کا حجم سکڑنا شروع ہو گیا۔ اسلام آباد دھرنے کے منتظم اعلی سیف اللہ نیازی نے دیگر قائدین کے بار ہا کہنے کے باوجود خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلوں کو یہ پیغام نہیں دیا کہ وہ 14 کی بجائے 15 اگست کی صبح کو ڈی چوک پہنچیں۔ ڈی چوک میں دھرنے کے انتظامات بھی 15 کی صبح اس وقت شروع ہوئے جب کور کمیٹی کے اجلاس میں سیف اللہ نیازی نے یہ کہا کہ میرے پاس فنڈز نہیں تھے جس پر جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے سارا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کروائے۔

13 روز کے اندر عمران خان نے کئی بیانات دے کر واپس لئے جس وجہ سے ان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد عمران خان کو بنی گالہ نہیں جانا چاہئے تھا۔ ان کی اس حرکت نے نہ صرف ان کے عام کارکن بلکہ کئی قائدین کو بھی دھچکا پہنچایا۔ سول نافرمانی کاا علان بھی انہوں نے غیر مناسب وقت پر کیا، تحریک انصاف کے کارکنوں کی اکثریت اس سے متفق نہیں۔

انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ہنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجنے کو کہا لیکن اگلے روز اپنا یہ بیان واپس لے لیا کیونکہ دنیا بھر میں ہنڈی کے ذریعے لین دین جرم ہے۔ عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہتک عزت کے دعوے کے جواب میں جو بیان داخل کروایا وہ بھی عمران خان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا، اطلاعات کے مطابق یہ بیان حامد خان نے تیار کیا تھا اور ان کے الفاظ بارے عمران خان کو علم نہیں تھا۔ استعفوں کے معاملے پر بغاوت نے بھی تحریک انصاف کے امیج کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

آج کا دن پاکستان کی سیاست کے نئے رخ کا تعین کرنے والا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری کی ڈیڈ لائن آج ختم ہو گی جبکہ عمران خان بھی آج غیر معمولی اقدام کرنے والے ہیں۔ حکومت کے پاس آپشن ختم ہوتے جا رہے ہیں اور جمہوریت اپنی آبرو بچانے کیلئے جائے پناہ تلاش کر رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔