احتجاجی دھرنوں کی طوالت سے افواہوں کا بازار گرم

ارشاد انصاری  بدھ 27 اگست 2014
صرف ڈالر کے بڑھنے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضہ 300 ارب روپے بڑھ چکا ہے۔   فوٹو : فائل

صرف ڈالر کے بڑھنے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضہ 300 ارب روپے بڑھ چکا ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اور ڈی چوک میں دیئے جانیوالے دھرنے اپنا دوسرا ہفتہ مکمل کرنے کو ہیں پرامن اختتام کی صورت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلے پُرامن اور طویل ترین دھرنوں کے اعزاز کا جھومر عمران خان اور طاہرالقادری کے ماتھے پر سجے گا جس سے حقیقتاً نئے پاکستان کی بنیاد پڑے گی۔

مگر لگتا ہے کہ کچھ قوتیں اور عناصر ملکی تاریخ کا (اب تک پُرامن) یہ جھومر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اورعوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کے ماتھے پر سجا دیکھنا نہیں چاہتے اور وہ نہیں چاہتے کہ ان دونوں رہنماؤں کی تاریخ ان اوراق میں لکھی جائے جسے مورخ سنہری حروف سے رقم کرے گا بلکہ وہ ان دھرنوں کو پُرتشدد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب یہ ان قائدین پر منحصر ہے کہ وہ کس آپشن کا انتخاب کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال سراب کی مانند دکھائی دیتی ہے جس میں کچھ معلوم نہیں کہ آگے کیا ہونے کو ہے پل بھر میں معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوتا دکھائی دیتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کچھ دیر میں دھرنے ختم اور کسی مُشترکہ اعلامیہ کا اعلان ہونے کو ہے مگر اگلے ہی پل حالات کروٹ لیتے ہیں اورنوبت کفن ،دفن کے اعلانات تک پہنچ جاتی ہے۔ اس صورتحال نے قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔

دھرنوں سے کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں اور حکومتی وزراء کے بیانات و اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ دونوں جماعتوں کے مارچ اور دھرنوں سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے اب تک ملکی معیشت کو آٹھ کھرب روپے تک کا نقصان پہنچ چُکا ہے، ملکی معیشت کیلئے ونڈو کی حیثیت رکھنے والی سٹاک مارکیٹ بھی اب تنزلی کا شکار ہے۔ بڑی کوششوں کے بعد مستحکم کی گئی روپے کی قدر گرنا شروع ہوئی ہے اور ڈالر نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی طرف سے بینکوں سے رقوم نکلوانے کی ہدایات کے اعلان نے پوری کردی ہے۔

صرف ڈالر کے بڑھنے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضہ 300 ارب روپے بڑھ چکا ہے۔ اقتصادی اشاریئے جن کے باعث اقوام عالم میں پاکستانی معیشت کا سٹیٹس دیوالیہ پن کی حامل معیشت سے نکل کر ترقی کی راہ پر معیشتوں کے طور پرشمار ہونا شروع ہوا موجودہ صورتحال سے اب یہ تمام اقتصادی اشارئیے گہنا رہے ہیں۔ ملک اس صورتحال کا زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ پھیلتی ہوئی معیشت سکڑنا شروع ہوگئی ہے ۔

دھرنوں کی طوالت کے ساتھ ساتھ افواہوں کے بازار میں بھی بڑی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور اس وقت پورا ملک اور خصوصاًاسلام آباد شدید افواہوں کی لپیٹ میں ہیں۔ مختلف حلقوں میں مختلف افواہیں اور تھیوریز زیر بحث ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ کوئی بڑا سانحہ ہونے کو ہے جس کے نتیجے میں موجودہ نظام کی بساط لپٹنے کو ہے مگر بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے دونوں جماعتوں کے قائدین جتنا آگے جا چکے ہیں وہاں سے ایک دم واپسی ممکن نہیں ہے اس لئے وقت گزارا جا رہا ہے اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کیلئے ایسا راستہ نکالا جائے جس سے ان جماعتوں کی سیاسی ساکھ متاثر نہ ہو اور تحریری طور پر کوئی ٹائم فریم پر مبنی معاہدہ ہو جائے جس کی معتبر حلقے ضمانت بھی دیں لیکن ایک طبقہ تو موجودہ حکومت کے متوازی حکومت بھی تیار کئے بیٹھا ہے اور اس طبقے کی تھیوری ہے کہ دھرنوں کے معاملات نمٹنے میں تاخیر کی بنیادی وجہ ہی متوازی حکومت کی ہیئت و ساخت کا مکمل نہ ہونا ہے، جیسے ہی تمام پورٹ فولیو طے پا جائیں گے تو معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ یہ طبقہ تو متبادل وزیراعظم کے نام تک ڈسکس کرنے میں مصروف عمل ہے۔ عمران خان کی طرف سے دو اہم شخصیات کے تحریک انصاف جوائن کرنے کے اعلان کو یہ طبقہ اسی سے تعبیر کر رہا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ شائد پیپلز پارٹی سے اہم شخصیات تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کرنے کو ہیں۔ اسی طبقہ کا خیال ہے کہ شائد مسلم لیگ (ن) میں بھی ایک فارورڈ بلاک تیار ہے اور ان کا نکتہ نظر اور موقف ہے کہ شائد ’’ود ان دی پارلیمنٹ‘‘ کوئی تبدیلی آنے کو ہے، جیسے ہی نئے سیٹ اپ کی تیاری مکمل ہو جائے گی تو یہ فارورڈ بلاک بھی سرگرم ہوجائے گا۔ مگر ایک تھیوری یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی بھی اپنے کارڈ چھُپائے بیٹھی ہے اور ان جماعتوں نے ابھی اپنے اصل کارڈ شو ہی نہیں کئے ہیں۔

اس طبقے کا خیال ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے اور عدم اعتماد کی کوئی صورتحال بنتی ہے، مسلم لیگ(ن) سے کچھ ممبران علیحدہ کئے جاتے ہیں تو ایسے میں اگر ناگزیر ہوا تو پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن)مل کر حکومت بنائیں گی اور پیپلز پارٹی کوڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ دیا جائیگا، مگر جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ وہ مختلف تھیوریز اور افواہیں ہیں جو اس وقت گردش کررہی ہیں۔

علامہ طاہر القادری کی طرف سے دی جانیوالی اڑتالیس گھٹنے کی ڈیڈ لائن بھی ختم ہونے کو ہے اور وہ کفن لہرا کرکئے جانے و الے اپنے پرجوش خطاب میں ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے قبل حکومتیں ختم نہ کرنے، وزیراعظم اور وزیراعلی کے استعفیٰ دے کر گرفتاری نہ دینے اور اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کی صورت میں دمام دم مست قلندر ہونے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ دوسری جانب عمران خان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے بھجوائے جانے والے لیگل نوٹس کے تحریری جواب میں افتخار محمد چوہدری کو پاکستان کا غیر سیاسی لیڈر قرار دیدیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کو آپکی قائدانہ صلاحیتوں سے بڑی توقعات وابستہ ہیں اور وہ خود (عمران خان) سابق چیف جسٹس کی عزت کرتے ہیں۔

افتخار محمد چوہدری کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مایوسی، بے چینی اور ذہنی اذیت کی کیفیت میں کہا، حالانکہ یہ سب کچھ کہنے کی ان کی کوئی نیت نہیں تھی ۔ دھرنوں میں شامل دوسری جماعت عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں بھی ممکنہ بغاوت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے سوالات اٹھائے ہیں اورکہا ہے کہ طاہر القادری کینیڈا کی بادشاہت کا وفادار ہے یا پاکستان کے آئین کا تابعدار ہے۔

طاہر القادری کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل اب بھی کینیڈا کے شہری ہیں یا شہریت ترک کردی ہے ، عدلیہ نے کینیڈا کی شہریت کا حلف پڑھ کرسنایا ۔ عدالت نے کہا کہ طاہر القادری کا احتجاج اگر بادشاہت کے خلاف ہے تو پھر بلوچستان کی آواز ضرور سنی جائے جس کے جرگے نے 1929 میں قرارداد منظور کی تھی کہ وہ برطانیہ کی غلامی نہیں کرے گا،آج اس کی منتخب اسمبلی نے منتخب اداروں کے حق میں قرارداد منظور کی ہے۔

تیسری اہم پیش رفت وزیراعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی منگل کو ہونے والی ملاقات ہے جس میں موجودہ سیاسی بحران کو ملکی مفاد میں جلد از جلد حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب، ملک کی مجموعی سکیورٹی کی صورتحال اور اسلام آباد میں جاری تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، جب کہ آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی بات چیت کی گئی، البتہ معتبر حلقوں کا کہنا ہے کہ معاملات طے پا چکے ہیں اورجلد اہم اعلانات متوقع ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔