نیٹو کنٹینرز اسکینڈل میں کسٹمز ایجنٹس پر الزامات تاحال ثابت نہ ہوسکے

احتشام مفتی  جمعرات 28 اگست 2014
پیشیوں پر کراچی آنے میں دشواریاں ہیں، تفتیش پشاور وبلوچستان دفاتر میں کی جائے،ایجنٹس۔ فوٹو: فائل

پیشیوں پر کراچی آنے میں دشواریاں ہیں، تفتیش پشاور وبلوچستان دفاتر میں کی جائے،ایجنٹس۔ فوٹو: فائل

کراچی: نیٹو ایساف کنٹینر اسکینڈل کی تفتیشی مرحلے میں پشاوراوربلوچستان کے کسٹمزکلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرایجنٹوں پر تاحال الزامات ثابت نہ ہوسکے۔

متاثرہ ایجنٹس نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب ) کی جانب سے جاری تفتیشی عمل میں ابھی تک پاکستان ریلوے اور لاجسٹک کمپنی کو شامل نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ ایک سابق ممبر کسٹمز ایف بی آرکی جانب سے نیٹوایساف کنٹینر اسکینڈل پرمرتب کردہ ابتدائی تحقیقی رپورٹ میں 28 ہزار کنٹینرز افغان سرحد عبورکیے بغیر پاکستان میں ہی غائب ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا جس پر اعلیٰ عدلیہ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کومعاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر شعیب سڈل نے بھی اس ضمن میں تحقیقات کی تھیں اوراپنی مرتب کردہ رپورٹ میں 28 ہزار کے بجائے 7922 کنٹینرز پاکستان میں غائب ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ رپورٹ میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی تھی کہ نیٹو ایساف کنٹینرز کی تعداد 28 ہزار نہیں ہے۔ اس رپورٹ کے بعد نیب نے ڈاکٹرمحمد شعیب سڈل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس میں کراچی، پشاور اور بلوچستان کے کسٹمز کلیئرنگ، فارورڈنگ اور بارڈرز ایجنٹس کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف نے 26 اگست 2006 کو باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کاروبار میںبارڈر ایجنٹس کے کردارکو ختم کردیا تھا جس کے بعد کسٹمزکے قانون اورکسٹمز ایکٹ میں بارڈر ایجنٹ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

کسٹمز کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرایجنٹوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 2 سال کی مدت گزرنے کے باوجود مذکورہ اسکینڈل میں تاحال نیب کسی ایجنٹ کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکا لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخوا اور چمن کے بارڈر ایجنٹس تحقیقات کے لیے باقاعدگی کے ساتھ کراچی آکر پیشیاں بھگت رہے ہیں جس سے نہ صرف انہیں بھاری اضافی اخراجات کا سامنا ہے بلکہ وہ شدید ذہنی اذیت سے بھی دوچار ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ سال2007 سے 2010 کے دوران غائب ہونے والے کنٹینرز کے اس اسکینڈل میں پاکستان ریلوے اورلاجسٹک کمپنی کو شامل تفتیش نہیں کیاگیا حالانکہ اس مدت کے دوران یہ ادارے ہی کنٹینرز کی ترسیل کے ذمے دار تھے۔ سابق کلکٹر کسٹمز پشاور یونس خان کی رپورٹ کے مطابق گمشدہ کنٹینرز کی تعداد صرف 28 سے 30 ہے جبکہ نیب 7922 کنٹینرز کی انکوائری کر رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ قومی احتساب بیورو کے پشاور اور بلوچستان میں دفاتر قائم ہیں لیکن متعلقہ ریجن میں کیسز کی تفتیش اور انکوائری کے بجائے تمام ایجنٹس کو کراچی طلب کیا جاتا ہے اور 450 ایجنٹس میں سے کسی ایک کی عدم پیشی کی بنا پر کیس کی سماعت آئندہ مدت کے لیے ملتوی کردی جاتی ہے۔

اس طرح ہر ایجنٹ کو ایک ماہ میں 2 مرتبہ کراچی کا دورہ کرنا پڑتا ہے اور اس صورتحال کی زد میں آنے والے کسٹمز کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈر ایجنٹس وقتا فوقتا نیب افسران، ایف بی آر حکام اورمتعلقہ کسٹمزکلکٹریٹ کوآگاہ بھی کرچکے ہیں لیکن کسٹمز کلیئرنگ، فارورڈنگ اور بارڈر ایجنٹس کو تاحال کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ متاثرہ کسٹم کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرایجنٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ پشاور اور بلوچستان کے ایجنٹس سے تفتیش وہاں کے مقامی ریجنل آفسزمیں کی جائے تاکہ انہیں بار بار کراچی آنے کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔