(پاکستان ایک نظر میں) - میرا دل بہت اداس ہے!

عاطف علی  جمعرات 28 اگست 2014
غضب خدا کا! اپنی دفتر والی محبوبہ کا غم چھپانے کیلئے انہوں نے ایک درجن لوگوں کو مروا دیا؟۔ فوٹو فائل

غضب خدا کا! اپنی دفتر والی محبوبہ کا غم چھپانے کیلئے انہوں نے ایک درجن لوگوں کو مروا دیا؟۔ فوٹو فائل

پیاری ڈائری!

تمہیں ضرور حیرت ہورہی ہوگی کہ آج میں کیسے ڈائری لکھنے بیٹھ گئی جبکہ یہ لکھنے لکھانے والے کام ہمارے منہ پھٹ میاں جی کے ہیں جو بلاوجہ اپنے آپ کو زبان دراز کہلواکر اس زبان کی خندق کو عزت دار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ خیر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ویسے بھی ہم خواتین کس کام میں مردوں میں پیچھے ہیں جو یہ تصنیف کا شعبہ مردوں کے حوالے کرکے پیچھے رہ جائیں؟

ویسے اگر سوچا جائے تو تمہارا بھی اتنا قصور نہیں۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر خواتین کے ہاتھ میں قلم یا تو سودے کی پرچی بنانے یا شلوار میں ازاربند ڈالنے سے ہی مخصوص کردیا گیا ہے۔ اگر خدانخواستہ کوئی بیچاری عورت ان روایات کو توڑ بھی دے تو یا تو بانو قدسیہ پر راجہ گدھ اشفاق احمد سے لکھوانے کا الزام لگادیا جاتا ہے یا بیچاری عصمت چغتائی پر فحش نگاری کا الزام لگ جاتا ہے۔ زرا خود انصاف کرو، یہی سب کچھ منٹو لکھے تو وہ ایک عظیم لکھاری، اور اگر عصمت لکھے تو فحش؟؟ گویا تمہاری دھوتی، فیشن اور ہماری دھوتی، لنگوٹ؟؟ اچھا انصاف ہے!!!

خیر! میں اس وقت خواتین کے حقوق کے رونے نہیں بیٹھی ہوں کہ یہ کام کرنے کیلئے ہم عورتوں نے بہت سے مرد رکھ چھوڑے ہیں جو اپنے گھروں میں خواتین کو شٹل کاک پہہنا کر دوسروں کو خواتین کے حقوق کی تلقین کرتے پھرتے ہیں۔ عرف عام میں ایسے لوگوں کو لبرل کہا جاتا ہے۔ رشیدہ آپا کی بیٹی اس دن کہہ رہی تھی کہ اس نے انٹرنیٹ پر پڑھا تھا کہ یہ مرد عورت کی آزادی سے زیادہ عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ پانچوں انگلیاں کبھی یکساں نہیں ہوتیں مگر کافی حد تک اس کی بات بھی صحیح تھی۔

بات کہاں سے نکلی تھی اور کہاں جا پہنچی! ڈائری لکھنے کی اصل وجہ یہ خواتین کے حقوق کا رونا نہیں بلکہ میاں جی کی حرکات کا رونا تھا۔ ملک میں انقلاب آئے نہ آئے ہمارے گھر میں انقلاب ضرور آگیا ہے۔ دن بھر دفتر میں خواتین کے ساتھ فلرٹ کرنے کے بعد جب شام گئے میاں جی لوٹتے ہیں تو اپنا دن بھر کا محبت لٹانے کا کوٹا پورا کر چکے ہوتے ہیں۔ حرام ہے کہ سیدھے منہ بات کرلیں۔ آکر بس ٹیلی وژن کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور رات گئے تک ملکی حالات پر بریکنگ نیوز کے چکر میں میرا دل بریک کرتے رہتے ہیں۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے شک کرنے کی رتی برابر بھی عادت نہیں ہے۔ اتفاقاََ موبائل ہاتھ لگ جائے یا ان کا فیس بک کھلا رہ جائے تو بندے کی نظر پڑ ہی جاتی ہے۔ اس پر بھی ان کا ہر وقت کا یہی رونا رہتا ہے کہ میں بلاوجہ شک کرتی رہتی ہوں۔ اب تم خود ہی بتاؤ میں معصوم جان کسی پر شک کرسکتی ہوں؟

کل سے البتہ میرا دل بہت زیادہ اداس ہے! میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ مجھ سے جھوٹ بھی بولنا شروع کردیں گے۔ کل شام کو جب یہ دفتر سے گھر آئے تو بہت تھکے ہوئے اور پریشان لگ رہے تھے۔ مجھ سے ضبط نہیں ہوا میں فوراََ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ پہلے تو کچھ نہیں بولے مگر میرے بہت کریدنے پر کہنے لگے کہ بیگم صاحبہ! آپ خود دیکھ رہی ہیں کہ ملک کس طرف جارہا ہے۔ ایک طرف تبدیلی کے نعرے ہیں اور دوسری طرف انقلاب کے۔ کوئی جمہوریت کے راگ الاپ رہا ہے تو کوئی حکمرانوں پر فرعونیت کے الزام لگا رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ بندہ کس طرف جائے۔ تبدیلی کی ضرورت سے کس کو انکار ہے؟ مگر یہی بات کسی کے سامنے کہہ دو تو وہ آپ کو تحریک انصاف کا کارکن سمجھ بیٹھتا ہے۔ انقلاب کی ضرورت و افادیت پر بات کرو تو آپ طاہرالقادری کے مرید کہلاتے ہیں۔ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی بات کرو تو سوال آتا ہے کہ آیا میں مسلم لیگ کا ووٹر تو نہیں ہوں؟ خود بتاؤ کہ انسان کرے تو کیا کرے؟ کیا ان تمام تحریکوں اور تنظیموں کے علاوہ کوئی پاکستانی نہیں ہوسکتا جو جس کی جو حق بات ہو اس کے حق میں ساتھ دے سکے؟؟ بیگم صاحبہ! میں اس لئے بھی اداس و پریشان ہوں کہ اس سب شور شرابے کے درمیان میں کل پھر میرے شہر میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔

پیاری ڈائری! باقی باتوں کے دوران تو میں موبائل پر کینڈی کرش کھیلتی رہی کہ یہ چار سو تیسواں راؤنڈ مردود مکمل ہی نہیں ہوکر دے رہا تھا اور میرا دماغ اس ہی میں اٹکا ہوا تھا۔ آخری جملے پر البتہ میرے کان کھڑے ہوگئے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ میرے منہ پر اس دھڑلے سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں! کل پورا دن مٰیں نے بھی ٹیلی وژن دیکھا تھا۔ اگر واقعی میں اتنے لوگ مرے ہوتے تو ایک آدھا ٹاک شو یا اور کچھ نہیں تو ایک نیوز بلیٹن تو اس بات پر بھی چلتا نا؟ غضب خدا کا! اپنی دفتر والی محبوبہ کا غم چھپانے کیلئے انہوں نے ایک درجن لوگوں کو مروا دیا؟

خیر، تم تو جانتی ہی ہو کہ مجھے زیادہ بولنے کی عادت نہیں ہے۔ زندگی کے غم تم سے نہیں تو کس سے کہوں؟ دل کی بھڑاس تھی سو نکال دی، اب مجھے اجازت دو۔ ویسے بھی کامیڈی نائٹ ود کپل کا ٹائم ہوگیا ہے اور تم جانتی ہو مجھے کپل کتنا کیوٹ لگتا ہے۔

والسلام

مسز زبان دراز

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔