دنیا کی دشوار ترین چوٹی کے ٹو، پہلی بار مقامی کوہ پیماؤں کے قدموں میں

شکور اعظم رومی  اتوار 31 اگست 2014
پہاڑ اضافی آکسیجن کے بغیر سر کی گئی، ٹیم میں پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بھی شامل تھیں۔ فوٹو: فائل

پہاڑ اضافی آکسیجن کے بغیر سر کی گئی، ٹیم میں پہلی پاکستانی خاتون ثمینہ بھی شامل تھیں۔ فوٹو: فائل

گلگت بلتستان پورے دنیا میں سیاحت ،ثقافت اور جغرافیائی حوالے سے ہمیشہ منفرد رہا ہے اور خصو صاََ پہاڑوں کے حوالے سے منفرد مقام حاصل ہے۔200 سے زیادہ بلندو بالا پہاڑ ملک کے اس خوب صو رت خطے گلگت بلتستان میں مو جود ہیںجنہیں دیکھنے اور سر کر نے کے لیے دنیا بھر سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح اور کوہ پیما گلگت بلتستان کا رخ کر تے ہیں لیکن گذشتہ برس کے افسوس ناک واقعہ جس میں ایک پاکستانی سمیت 10 غیر ملکی کوہ پیماؤں کو ننگا پر بت بیس کیمپ میں دہشت گردی کا نشانہ بنا یا گیا، جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں سیاحت اور کوہ پیمائی کے شعبے کو شدید دھچکا لگا۔

گذشتہ برس ہو نے والی سلک روٹ فیسٹیول میں ان ممالک کے سفارت کار اور سفارتی عملے کو خصو صی دعوت دی گئی تھی، جن کے کوہ پیما ننگا پر بت بیس کیمپ میں دہشت گردوں کا نشانہ بنے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ پوری دنیا کو امن کا پیغام دیا جا سکے کہ یہاں بسنے والے لوگ سیاح دوست اور پر امن ہیں۔ گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ تصور کیا جاتا ہے، جہاں تین عظیم پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم ، کوہِ ہمالیہ اور کوہِ ہندو کش آپس میں جگلوٹ کے مقام پر ملتے ہیں۔

کوہ ہمالیہ دنیا کے ان عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے جن میں دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ، جو کہ نیپال میں واقع ہے اور کے ٹو سمیت 100 سے زیادہ ایسی پہاڑی چوٹیاں موجود ہیں، جن کی بلندی 7200 میٹر سے زیادہ ہے۔ یوں تو گلگت بلتستان میں چھوٹی بڑی چوٹیاں سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں لیکن دنیا کی آٹھ مشہور و معروف پہاڑی چوٹیوں میں سے پانچ اس خوب صورت خطے میں ہیں۔ ان میں کے ٹو، ننگاپربت، پراڈ پیک، گشہ بروم 1، گشہ بروم 2 شامل ہیں، جن کی اونچائی 8000 میٹر سے بھی زیادہ ہے۔

کے ٹو دنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ہے، جس کی بلندی 8611 میٹر یعنی 28251 فٹ ہے، جو سال بھر برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ کوہ پیماؤں کے مطابق دنیا کی بلند ترین ماؤنٹ ایورسٹ کی نسبت K2 کو سر کرنا انتہائی دشوار ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ اب تک ماؤنٹ کو 3448 کوہ پیما سر کر چکے ہیں۔ ان میں گلگت بلتستان کی پہلی کوہ پیما خاتون ثمینہ بیگ بھی شامل ہیں جب کہ K2 کو صرف 303 کوہ پیما کام یابی کے ساتھ سر سکے ہیں اور کئی کوہ پیما اس چوٹی کو سر کرنے کے شوق میں اپنی جانوں سے ہاتھ بیٹھے ہیں۔ گلگت بلتستان پہاڑی دولت سے مالا مال ہے۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاحوں اور کوہ پیماؤں کو تحفظ فراہم کرے اور انہیں بہتر سہولتیں مہیا کر کے کوہ پیمائی کے شعبے کو فروغ دے۔

گلگت بلتستان کے چھے کوہ پیماؤں نے اطالوی مہم جو ٹیم کے ساتھ مل کر پہلی بار دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ”کے ٹو” کو سر کیا۔ اس چوٹی کو پہلی بار ساٹھ سال قبل 31 جولائی 1954 کو اطالوی ٹیم نے سر کیا تھا۔ حالیہ مہم کو گلگت بلتستان کی حکومت اور اٹلی کی تنظیم EV-K2-CNR نے اسپانسر کیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق کے ٹو کی اونچائی 8611 میٹر ہے اور یہ پاکستان کی سب سے اونچی چوٹی ہے، جو پاک چین سر حد پر قراقرم کے بڑے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ کے ٹو کو بلتی زبان میں “چو گوری” بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب پہاڑوں کا راجہ ہے۔ پاکستان ٹؤر آپریٹرز ایسو سی ایشن کے صدر امجد ایوب نے تصدیق کی ہے کہ کوہ پیماؤں نے یہ چوٹی اضا فی آکسیجن استعمال کیے بغیر سر کی ہے۔

اس مہم جو ٹیم میں چھے پاکستانی حسن جان، علی درانی، رحمت اللہ بیگ ، غلام مہدی ،علی اور محمد صادق شامل ہیں۔ صادق بلتستان کے رہائشی اور مشہور کوہ پیما حسن سد پارہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ پاکستانی ٹیم کے دوسرے ارکان کا تعلق بلتستان کے علاقے ہو شے وادی اور شمشال سے ہے۔ اس ٹیم میںتین اطالوی بھی شامل تھے۔

1954 میں پہلی بار دو اطالوی کوہ پیماؤں Achille Compagnoni اور Lino Lacedelli نے کے ٹو سر کیا تھا۔ گلگت بلتستان کی وزیر اطلاعات سعدیہ دانش نے، جو سیاحت کے محکمے کی سربراہ بھی ہیں، کہاہے کہ کے ٹو کی چوٹی سر کر نا، علاقے میں سیاحت کی بہ حالی کی جانب پہلا قدم ہے۔ انہوں نے ایکسپریس سے گفت گو کر تے ہو ئے کہا کہ گذشتہ برس ننگا پربت بیس کیمپ پر ہلاکتوں کے بعد سیاحت کو شدید دھچکا لگا تھا۔

کے ٹو سر کرنے کی ساٹھ سالہ تقریبات کے سلسلے میں EV-K2-CNRنے اس ایکسپیڈیشن کا انعقاد کیا۔اس مہم جو ئی کیلئے گورنمنٹ ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی حکومت کا بھی پورا تعاون رہا۔

اس ایکسپیڈیشن کے چند اغراض و مقاصد یہ ہیں۔

۱۔پاکستان کے کوہ پیماوں کو موقع فراہم کرنا کہ جس کے وسیلے سے وہ اپنے صلاحیتوں کا لو ہا منوا سکیں اور دنیا بھر کو بتا سکیں۔

دنیا بھر کے سیاح خاص طور پر ایڈونچرٹورازم سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کو اس علاقے کی جانب راغب کر نا تاکہ علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے۔

سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کی اہمیت کو اجاگر کر نا، جس کے اندر کے ٹو اور دوسرے بلند پہاڑ موجود ہیں، یہ پاکستان کا سے بڑا نیشنل پارک ہے۔

گلگت بلتستان میں پانچ مشہور چوٹیاں موجود ہیں، جن میں کے ٹو، ننگاپربت، G2,G1، براڈپیک، جو 8000 میٹر سے بلند جو ٹیاں ہیں۔

جون 2014 کو اٹلی میں گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری سکندر سلطان راجہ کو اٹلی کی حکو مت کی جانب سے پاکستان اور اٹلی کے پرچم دیے گئے۔ پاکستانی سفیر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جون 2014 کو اسلام آباد میں پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات نے کوہ پیماؤں کو حکو مت پاکستان کی جانب سے قومی پرچم دے کر اس ایکسپیڈیشن کے شرکا کو روانہ کیا جب کہ 14 جون 2014 کو گلگت بلتستان کی حکو مت کی جانب سے سکردو سے ان کوہ پیماوں کو کے ٹو کی مہم پر رخصت کیا گیا۔

سات دن کی پیدل مسافت کے بعد یہ کوہ پیما کے ٹو بیس کیمپ میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد پہاڑ سر کر نے کی تیاریوں میں ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا اور 26 جولائی 2014 کو  چھے پاکستانی اور ایک اطالوی کوہ پیما کے ٹو سر کر نے میں کام یاب ہوگئے۔

حالیہ دنوں میں کے ٹو سر کر نے والی ٹیم سے سکردو میں روزنامہ ایکسپریس کی خصوصی گفت گو نذر قارئیں ہے۔

 میکلے کوکی (Michele Cucchi)

ایکسپریس : آپ نے کے ٹو سر کر لیا، آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟

میکلے کوکی: ایک کوہ پیما کا خواب ہوتا ہے کہ وہ کے ٹو سر کرے، اسی خواہش کے تحت میں پاکستان آیا  اور کام یابی ملی۔ میں اٹھائیس سال سے کوہ پیمائی کر رہا ہوں۔ یورپ اور پاکستان کے پہاڑوں کی اونچائی میں بہت فرق ہے۔ یہاں کے پہاڑ بہت ہی اونچے ہیں اور اونچے پہاڑوں کو سر کرنا ایک کوہ پیما کاخواب ہو تا ہے، خواہ وہ دنیا کے جس بھی خطے میں ہو۔ پینتیس سال قبل میرے استاد یہاں آئے تھے اور یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اپنے استاد کی طرح میں نے بھی کے ٹو سر کر لیا۔

ایکسپریس : اثنائے راہ کوئی مشکل پیش آئی؟

میکلے کوکی: گزشتہ سال کوئی بھی کوہ پیما کیمپ تھری سے اوپر نہیں جا سکا تھا۔ دنیا بھر کے کوہ پیماوں کے لیے کے ٹو سر کر نا ماؤنٹ ایورسٹ سر کر نے سے بھی بڑا خواب ہوتا ہے، اس کی وجہ غالباً اس کی دشوار گزاری ہے۔

ایکسپریس : ای وی کے ٹو سی این آر کی سرگرمیاں اور ترقیاتی کاموں کے باری میں ّپ کیا کہیں گے؟

میکلے کوکی: گلگت بلتستان اور پاکستان میں ای وی کے ٹو سی این آر کی سرگرمیاں اور ترقیاتی کام قابل تحسین ہیں۔ ماحول کو صاف رکھنے کے حوالے سے حکومت اور دوسرے اداروں کو مل کر کام کر نا ہوگا اور ان پہاڑوں اور گلیشیئرز کو پاک صاف رکھنا ہوگا۔ مجھے اس بات کی بھی بے حد خو شی ہے کہ جن پاکستانی کوہ پیما ؤں نے کے ٹو سر کر لیا، یہ سب میرے شاگرد رہے اور ان کو میں نے تربیت دی ہے۔ میں جب بھی پاکستان آتا ہوں تو بہت خوش ہوتا ہوں لیکن جب واپس جانا ہوتا ہے تو اداس ہو جاتا ہوں کیوں کہ جس طرح کی مہمان نوازی اور محبت یہاں ہمیں ملتی ہے، اس کی یاد آتی ہے۔

آگسٹینو دا پولنزا (Agostino Da Polenza)

ایکسپریس: آپ کی تو کے ٹو کے ساتھ پرانی سنگت ہے، اس بار آپ کے تاثرات کیسے رہے؟ آگسٹینو دا پولنزا: مجھے اس خطے سے بڑی محبت ہے۔ 1983 میں، میں نے کے ٹو سر کر لیاتھا لیکن اس سے بہت پہلے 1954 میں، جب اٹلی کے کوہ پیما وں نے پہلی مرتبہ کے ٹو سر کیا تھا تو اس ٹیم میں میرے خاندان کے عزیز بھی شامل تھے۔

ایکسپریس: اس خطے کے بارے میں کیا کہتے ہیں آپ؟

آگسٹینو دا پولنزا: گلگت بلتستان بہت خوب صورت خطہ ہے اور قدرت نے اسے ذخائر سے بھی فیاضی کے ساتھ نواز رکھا ہے۔ اٹلی کی حکومت اور ای وی کے ٹو سی این آر اس خطے میں ایک لمبے عرصے سے کام کر رہا ہے۔ سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کے لیے مہم گذشتہ کئی سال سے کام کر رہا ہے اور کے ٹو اسی پارک کے اندر ہے۔ میری خواہش تھی کہ  پاکستان ایکسپیڈیشن کی مالی معاونت کر کے کے ٹو فتح کر نے میں مدد کر وں لہٰذا ہم نے تین سال تک ان کوہ پیماؤں کی تر بیت کی اور 2014 میں پاکستان کے کوہ پیماوں نے کے ٹو سر کر ہی لیا۔

حسن جان (Climbing Leader ) نے پروفیشنل کوہ پیما کے طور پر 2002 میں کوہ پیمائی کا آغاز کیا اور G2 کو summit کر نے کی کوشش کی۔ جاپانی ایکسپیڈیشن میں 8065 میٹر بلندG1 کو سرکیا۔ اسپین کے ایکسپیڈیشن میں 2003,8035  G2 کو سر کیا۔ 2004 میں دائیں ہاتھ کے 4 انگلیاں k2 ،8611 سر کر نے کی کو شش میں کٹ گئیں۔8000  میٹر سے اوپر گئے اور محض 40 میٹر کے فاصلے سے واپس آنا پڑا ۔ 2009 میں ننگا پر بت 8125 میٹر کی بلندی اسپینش گروپ کے ساتھ سر کی۔ 2007 میں براڈ پیک کی 8047 میٹر کی بلندی بھی اسپینش ٹیم کے ساتھ سر کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔