یاس و امید

موسیٰ رضا آفندی  اتوار 31 اگست 2014
moosaafendi@gmail.com

[email protected]

پوری قوم اس وقت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے جو یاس وامید کے گرد گھومتی ہے۔ایک طرف مایوسی نظرآرہی ہے اور دوسری طرف بہترین امیدیں۔ مایوسیوں کی وجہ آزادی اورانقلابی دھرنوں کی ممکنہ ناکامیوں سے ہے جب کہ بہترین امیدیں ان ہی دھرنوں کی متوقع کامیابیوں سے وابستہ ہیں جمعرات کی شام سے سپہ سالار کا بطورسہولت کار مسئلے میں سامنے آنا اور اس آنے کو آزادی اور انقلابی دھرنوں کے رہنماؤں کا خوش آمدید کہنے نے قوم کی امیدوں کے پلڑے کو بھاری کردیا ہے۔

جس کے نتیجے میں جمعہ کی صبح کراچی اسٹاک مارکیٹ نے ایک ہزار پوائنٹس میں اضافہ کی نوید سنائی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ لوگ اب معمولات زندگی میں واپس آنا چاہتے ہیں اور گذشتہ تین ہفتوں سے زائد جاری مخمصوں اور بے یقینی کی صورت حالات سے نکلنا چاہتے ہیں یہ ایک انہونی اور ناقابل یقین بات ہے پاکستان کے لوگوں کی اکثریت گذشتہ کئی دنوں سے ٹیلیویژن سیٹوں کے آگے صرف باتیں سننے کے لیے بیٹھی ہوئی ہے اور اب یہ باتیں سن سن کر تنگ آگئی ہے کیونکہ انھیں اس بات کا مکمل شعور ہے کہ نتائج اعمال سے نکلتے ہیں باتوں سے نہیں ۔ پاکستانی قوم کا یہ صبر اور استقامت کا جذبہ اور اس کا اس طرح سے آزادانہ اظہار گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے قابل ہے۔

یہ اظہاریہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ضرور درج ہوجاتا اگر یہ قوم پاکستانی ہونے کی بجائے ہندوستانی ہوتی یا پھر اسرائیلی۔ پاکستانی قوم کا تشخص ـ ’’ مہذب ‘‘ قوموں نے صرف دہشت گردی خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے جوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تین ہفتوں سے پاکستان کے عوام کا اس حیرت انگیز نظم وضبط سے لبریز پرامن مظاہروں کو بین الاقوامی میڈیا نے کوئی پذیرائی نہیں بخشی۔

غیروں نے یہ پذیرائی اس لیے نہیں بخشی کہ وہ ایک مسلمان ایٹمی ملک کو نظم وضبط اور امن کا داعی ہونا اگر تسلیم کرلیں تو پھر اس کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف مہم جوئی کیسے جاری رکھ سکیں گے وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ ثابت کرنے کے درپے ہیں ان کے لیے پاکستانی قوم کا یہ نظم وضبط اس ثابت قدمی اور بھرپور امن کے ساتھ کا مظاہرہ ایک سانحے سے کم نہیں ان کے پاس اب کوئی جواز نہیں رہ جاتا کہ وہ پاکستانی قوم کو جبلی طور پر دہشت گرد اور بنیاد پرست ثابت کر سکیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اب تازہ ترین سروؤں کے ذریعے دھرنا دینے والے احتجاجی لوگوں اور ان کے لیڈروں کی مقبولیت میں کمی کا رونا لے کر بیٹھ گئی ہے۔ مہذب قوموں کی پاکستانی قوم کے عزم و حوصلے کے مقابلے میں یہ پہلی شکست کا واضح ثبوت ہے۔

دوسری طرف پاکستانی قوم کا یہ پرامن نظم وضبط کے ساتھ احتجاج کا مسلسل مظاہرہ کچھ اپنوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے جو اس قوم کے انتشار میں ہی اپنی دکان چمکا سکتے ہیں اس قوم کو فساد زدہ کرنے میں جنکا رزق پوشیدہ ہے۔ جن کا کام جبہ اور دستار کا کاروبار ہی واحد منافع بخش کاروبار ہے۔ جن کا کام نفرت کی سیاست ہے ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنے کی سیاست ہے ۔ جن کا کام عدالتوں کے واضع احکامات پر عمل نہ کرکے ان احکامات کا مذاق اڑانا ہے۔ یہ وہ سارے ہم وطن ہیں جہنیں اب عوام نے پوری طرح پہچان لیا ہے۔

پارلیمنٹ کے اندر شور مچانے والے جمہوریت کو بچانے کا واویلا کرنے والوں پر حکومت نے واضح کردیا ہے کہ وہ کسقدر احسان فراموش ہیں کہ اپنے حواریوں کو پوچھے بغیر فوجی سربراہ کے آگے جھولی پھیلادی ہے۔ دھرنے والوں کی یہ عظیم کامیابی ہے جس نے نہ صرف تقریروں کے ذریعے پاکستان کے سارے لوگوں کو آئین اور آئینی دفعات کے  بارے میں آگاہ کیا بلکہ اس نام نہاد جمہوریت کو بھی اپنی اصلی صورت دکھانے پر مجبور کردیا تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ بدبو بدبو ہوتی ہے اور خوش بو خوش بو ۔ لوگوں پر یہ چیز بھی واضح ہوگئی حکمران طاقتیں اپنی سرشت میں کتنی ہوشیار ہوتی ہیں جو اپنے ہی الفاظ کو بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتیں۔

پاکستان کے دھرنا دینے والوں کی عظمت کو سلام جنھوں نے ملک اور عوام دونوں پر یہ بات واضح کردی ہے کہ پاکستان کے سارے مسائل کا حل پاکستان کے آئین کی متعلقہ دفعات پرعمل کرنے میں پوشیدہ ہے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی بیرونی یا دیگر نسخے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ آئینی دفعات ہیں جو آئین میں درج ہونے کے باوجود کبھی قابل توجہ نہیں ٹھہرائی گئیں۔ 1973 ء کے بعد سے جتنے انتخابات بھی ہوئے وہ آئین میں درج ان دفعات کو ہمیشہ نظر انداز کرکے ہوئے، اس لیے دیکھا جائے تو وہ سارے انتخابات غیر آئینی اور دھاندلی زدہ تھے۔ حیرت ہے ان آئینی ماہرین اور نام نہاد قانوں دانوں پر جنھیں اسی آئین کے بارے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے سبق پڑھائے اور پہلی دفعہ انھیں نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ٹھیک ٹھیک طریقے سے سمجھا دیا کہ یہ قوم  مسیحاؤں کی شکل میں ان ٹھگوں کے ہاتھوں لٹتی رہی ہے۔

یاس اور امید کے دو راستے ہمارے سامنے ہیں اب یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ فوج کی مداخلت کو دونوں فریقوں نے خوش دلی کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے۔ سیاست دان اب پاکستان کے لوگوں کے سامنے بے توقیر چکے ہیں سیاستدان فوج کے سامنے اپنا وقار کھو چکے ہیں اب وہ جو راگ بھی الاپیں وہ ان کے درجات بلند کرنے میں کبھی مدد نہیں دے سکتے حکومت جو اپنی ہر لحاظ سے اکثریت کی دعویدار رہی ہے دھرنے والوں سے گفت وشنید کرنے میں اپنی ناکامی تسلیم کرچکی ہے دھرنے والے اپنی مانگوں کو اس حکومت سے منوانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

اگر فوج نواز حکومت کو بچاتی ہے یہ دھرنے والوں کو قابل قبول نہ ہوگا۔  اگر دھرنے والوں کی مانگوں کے مطابق فیصلہ کرتی ہے تو نواز حکومت شہید کہلائے گی۔ کسقدر افسوس کا مقام ہے کہ بھرپور اکثریت کی دعویدار حکومت نہ تو دلیل کی خوبصورتی  سے لطٖف اندوز ہوسکی اور نہ ہی غلیلی طاقت اور توانائی کے آگے جھکنے کے درد اور تکلیف کی شدت سے خود کو بچا سکی۔ پاکستان کے لوگوں کے لیے امید و یاس کے ان فیصلہ کن لمحات میں ایک یہ تڑپ ضرور موجود ہے کہ فیصلہ جو بھی ہو وہ پاکستان کے کسی ادارے کے لیے منفی اثرات کا حامل نہ ہو کیونکہ سیاستدانوں نے اپنی کوتاہ بینی سے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اس کو سیاست دان ابتک چلانے کے قابل نہیں بن سکے ۔

خدا ہمار ا حامی وناصر ہو۔ آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔