گیند حکومت کے کورٹ میں

ایم جے گوہر  اتوار 31 اگست 2014

اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ حکمرانوں سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے سیاسی رہنماؤں کو جلسے، جلوس، ریلیاں، لانگ مارچ اور دھرنے دینے کا آئینی، قانونی اور جمہوری حق حاصل ہے کیونکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن اور اظہار رائے کی آزادی کا مظہر ہے۔

دنیا کے مہذب و باوقار جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پرامن طریقے سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنا ایک بالکل معمول کی بات ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دیے بیٹھے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کا جم غفیر بھی تاحال پرامن طریقے سے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مستعفی ہونے کے ایک نکاتی مطالبے پر جمے رہنے کے باعث نہ صرف فریقین کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوچکا ہے بلکہ حکومتی کیمپ میں تیزی، پریشانی و گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں اور وزیر اعظم و ان کے ساتھیوں کی مفاہمت و مصالحت کی تمام تر کوششیں توقع کے مطابق ثمرآور ثابت ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔جاری سیاسی بحران کے گزشتہ دو ہفتے کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور اے این پی کے رہنما اسفند یار ولی سمیت تمام قابل ذکر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت و ملاقاتوں کے کئی مرحلے طے کیے حکومتی ٹیم اور عمران خان اور مولانا طاہر القادری کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان بھی مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔

عمران خان اور مولانا طاہر القادری وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کے اپنے یک نکاتی ایجنڈے سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور میاں صاحب کے استعفے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ ادھر حکومت بھی بالاصرار مستعفی نہ ہونے کے اپنے فیصلے پر کھڑی ہوئی ہے۔ ہر دو فریق کی جانب سے غیر لچکدار رویہ اپنانے کے باعث مذاکرات میں ’’ڈیڈ لاک‘‘ کی صورتحال بدستور برقرار ہے جب کہ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن افضل خان ودیگر کے انکشافات کے بعد عمران خان کا دھاندلی کا الزام تو اور مضبوط ہوگیا ہے جس کے باعث ان کے لب و لہجے میں بھی سخت گیری نظر آرہی ہے۔

ملک ان دنوں جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے وہ بااختیار قوتوں، حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماؤں سب ہی سے حب الوطنی اور دانشمندانہ طرز عمل اپنانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ ایک جانب پاک فوج ضرب عضب آپریشن کے ذریعے وطن عزیز کو دہشت گردی کے خوفناک عفریت سے نجات دلانے کے لیے مصروف عمل ہے اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے تاریخ رقم کر رہی ہے تو دوسری طرف ازلی دشمن بھارت گزشتہ کئی ہفتوں سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے سیالکوٹ سیکٹر پر آئے دن فائرنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس کے باعث پاک بھارت تعلقات میں سخت کشیدگی کے آثار نظر آرہے ہیں جب کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر دراندازی کے الزامات نے ماحول کو اور بھی زیادہ کشیدہ بنا دیا ہے۔

صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر پاک فوج کی شدید خواہش ہے کہ ایسے حالات میں ملک بدامنی کی نذر ہونے کی بجائے سیاسی طور پر مستحکم رہے اور حکومت اپنے مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تنازعات اور اختلافات کا قابل قبول حل تلاش کریں اسی پس منظر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سے اپنی حالیہ ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے واضح طور پر کہا ہے کہ قومی مفاد میں سیاسی بحران کو جلدازجلد اتفاق رائے سے حل کیا جائے۔ آرمی چیف نے ’’ریڈ زون‘‘ میں پلنے والے انتشار اور سیاسی بحران و افراتفری پر کور کمانڈرز کی تشویش سے بھی وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔ محب وطن طبقے توقع کر رہے ہیں کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم کی ملاقات کے جلد مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

ملک کی گمبھیر صورتحال اور قومی مفاد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف  دھرنا اور سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے جلد ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھائیں گے۔ریڈزون میں براجمان مولانا طاہر القادری اور ان کے پیرو کاروں مریدین و معتقدین کے لیے یہ امر یقینا حد درجہ طمانیت کا باعث ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس آپریشن کے دوران 14 افراد کی ہلاکت پر سیشن کورٹ کے فیصلے کے خلاف چار وفاقی وزرا کی درخواستیں لاہور ہائی کورٹ نے خارج کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، بعض وفاقی وزرا اور اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جس پر حکومتی کیمپ میں شدید مایوسی اور بے چینی پھیل گئی ہے ۔

اس پر مستزاد یہ کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں آپریشن ماڈل ٹاؤن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا اس کو حکم دیا گیا اور پولیس نے منظوری ہی سے آپریشن کیا۔ سیشن و لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد مولانا طاہر القادری اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو گویا انصاف ملنے کی امید نظر آنے لگی۔ موقع کی مناسبت سے مولانا طاہر القادری نے فوری ’’ایکشن‘‘ لیا اور اپنا کفن لہراتے ہوئے اپنے مریدوں، پیروکاروں اور معتقدین سے ایک پرجوش خطاب کیا جس میں انھوں نے حکومت کو 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اس کے خاتمے پر کفن ہی کفن نظر آئیں گے۔

اور پھر ڈیڈ لائن ختم ہوگئی۔ کارکنوں و مریدوں نے کفن اوڑھ لیے قبریں کھود لیں لیکن پھر حکومتی ٹیم مذاکرات کے لیے پہنچ گئی تو قادری صاحب نے دو مطالبات فوری طور پر منظوری کے لیے حکومتی ٹیم کے سامنے رکھ دیے اور رات 9:30 بجے کی ڈیڈ لائن کا حکم صادر فرمایا اول مطالبہ یہ تھا کہ نامزد ملزمان کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIR درج کراکے کاپی انھیں فراہم کی جائے دوئم تمام نامزد ملزمان فوری طور پر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں، لیکن  حکومت نے قادری صاحب کے دونوں مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ردعمل میں قادری صاحب نے بھی عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کے دروازے بند کردیے۔

وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا کہ دھرنے کے محرکات پر بحث ہونی چاہیے اور عدالت عظمیٰ کا یہ سوال بھی اٹھایا جانا اپنی جگہ درست ہے کہ کیا مجمع اکٹھا کرکے منتخب وزیر اعظم سے استعفیٰ لیا جاسکتا ہے نہیں، لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ قانون و آئین کی پاسداری اور عملداری کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے گیند اب حکومت کے کورٹ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔