موجودہ سیاسی حالات اور نتائج

سید منظور عباس  اتوار 31 اگست 2014

پاکستان میں جمہوریت کا پودا ابھی اتنا توانا نہیں ہوا کہ سازشوں کے تند طوفانوں کا مقابلہ کرسکے، یہی وجہ ہے کہ سازشوں کے ایک جھٹکے میں ڈولنے لگا ہے۔

اس وقت خطے کے حالات خصوصی طور پر ہمارے اندرونی حالات اور اسلامی ممالک کے سیاسی حالات پاکستان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ جب پاک افواج ملک کے اندر آپریشن میں مصروف ہیں کسی ایڈونچر کو برداشت کیا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو تجربات ہوئے ہیں اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہوجاتا ہے کہ پاکستانی قوم آج جس حالت میں کھڑی ہے اس کے ذمے دار کون ہیں۔ پاک افواج نے جس جذبے سے ضرب عضب کو شروع کیا تھا تو ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں بنے ہوئے نوگوایریاز کس طرح ختم ہوئے اور وہ ملک دشمن عناصر جو عرصے سے مکمل تحفظ کے ساتھ ملک میں دندناتے پھر رہے تھے .

ان کو پناہ نہیں مل رہی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں جس تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری طور پر منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری کی اس نے یہ ثابت کردیا کہ سیاسی سطح پر ملکی معاملات کو آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے جمہوریت پر یقین اور سیاسی عزم کے ساتھ جمہوری روایات کا پاسبان بھی ہونا پڑتا ہے، کیونکہ مصلحت کی سیاست ہمارے ملک میں، جہاں جاگیردارانہ رویوں کی بھرمار ہو وہاں آگ کا دریا ہوتی ہے، جس کو پار کرنے کے لیے ڈوب کر جانا پڑتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس نے اپنی سیاست کی ابتدا جمہوریت کے تخفظ اور فروغ سے شروع کی تھی آج بھی اس پر قائم ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے فوری بعد جب اسمبلی نے اپنا بزنس بھی پوری طرح شروع نہیں کیا تھا طالع آزما ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کو ملکی بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اسلامی ممالک میں روز بروز بڑھتی ہوئی دہشت گردوں کی بربریت اور غیر انسانی سرگرمیاں دنیا میں اسلام کے تصور کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اسلامی ممالک میں داعش اور بیرونی طور پر اسرائیل نہ صرف ان ممالک کی معیشت کو ختم کرنے کے درپے ہے بلکہ اسرائیل کی بربریت کی تازہ مثال فلسطین میں بے گناہوں کے قتل عام کی صورت میں ہمارے سامنے آ رہی ہے۔

اس وقت اسلامی ممالک کے خلاف نبرد آزما قوتیں بہت سے ممالک میں اندرونی خلفشار پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں بلکہ وہ پاکستان کو اپنے مضبوط اڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہمارے ملک کو تربیتی کیمپ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ اس ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے ساتھ ہی پاک افواج عمل میں آئی اور عالمی دہشت گردوں کے ہب کو توڑ کر ان کی تباہی کا مکمل سامان کرلیا تھا۔ جب ان قوتوں نے اپنے کیمپ کی تباہی دیکھی تو وہ ملک میں ابھرتی ہوئی جمہوریت پر غیر جمہوری قوتوں کو متحرک کرتے ہوئے اس پر کاری ضرب لگانے کے لیے کوشاں ہوئی۔

پاک افواج نے جس خوش اسلوبی سے ملک میں ان کے گرد دائرہ تنگ کیا تھا اس عمل کو پوری دنیا میں امید کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا مگر ملک میں جمہوریت دشمن عناصر نے اس کی شکل جس طریقے سے تبدیل کی اس عمل نے ملکی تکریم کے اس معیار کو خراب کردیا جو بہت مشکل سے قائم ہوا تھا۔ جب کہ آج کی ضروریات تبدیل ہوچکی ہیں، دنیا امن کی بات کر رہی ہے کیونکہ گلوبل ولیج میں امن کے بغیر ملکی نظام کسی صورت بھی چلایا نہیں جاسکتا ہے۔ اسی لیے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد اس خطے میں امن کو قائم رکھنا سب سے اہم ہے اور پوری دنیا افغانستان کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔

ڈی چوک میں ہونے والے عوامی اجتماع پر کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ بھوک کے ستائے ہوئے ہیں مگر ان کو استعمال کرتے ہوئے جس روایت کی ابتدا کی جارہی ہے وہ 58/2B سے زیادہ خطرناک اور آسان ہے، جسے کبھی بھی کوئی استعمال کرکے منتخب حکومت کو ختم کردے گا، بلکہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کے خلاف نبرد آزما قوتیں نہ صرف منظم ہیں بلکہ اس کے پاس عددی قوت کسی بھی سیاسی قوت سے زیادہ ہے، جس کو استعمال کرکے وہ کسی بھی وقت ملکی نظام کا پہیہ جام کرسکتی ہے بلکہ اس کو تاریکی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ آمرانہ اور جاگیردارانہ رویوں کے حامل لیڈر اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے ہوئے ملک کو تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں، بلکہ ملک میں ایسی قوتوں کو دعوت دے رہے ہیں جو ماضی میں عوام کی عزت نفس کو پامال کرتی اور تباہی کے اسباب کا باعث رہی ہیں۔

ملک کے نازک سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے جمہوریت کو بچانے کا عزم کیا اور دھرنے والوں اور حکمرانوں کے درمیان پل بنتے ہوئے ملک کے سیاسی نظام کو بچانے کے لیے کوشاں ہے جس کے لیے نہ صرف پارٹی لیڈران جمہوریت کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہیں بلکہ ان تمام دوست سیاسی قوتوں کو بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کا واحد مقصد ملک میں جمہوری نظام کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

سیاسیات کے طالب علم یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کے بغیر امن اور ترقی ایک سہانے خواب کے علاوہ کچھ نہیں مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ڈی چوک میں ایسی فضا قائم کی جارہی ہے جو اس ملک میں قائم ہونے والی جمہوریت کے لیے سم قاتل ہے کیونکہ اس میں ملکی اداروں کے اوپر سے اعتماد ختم کیا جا رہا ہے، ان دھرنوں میں چلنے والی الفاظ کی آندھی کسی طور بھی اس ملک میں پروان چڑھنے والی نومولود جمہوریت کے لیے درست نہیں ہے۔

سیاسیات کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے تو انارکی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، جس کی انتہا خانہ جنگی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ کاوشوں کا واحد مقصد اس ملک کی نومولود جمہوریت کو تباہی سے بچانا ہے کیونکہ پارٹی نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ امن کی دیوی کو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک کو بچایا ہے۔ جب میں یہ کالم تحریر کر رہا تھا تو خبر ملی کہ ہمارے دوست اور پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ کورنگی کراچی کے سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹر نسیم عون جعفری کو جمہوریت دشمنوں نے ٹارگٹ کرکے شہید کردیا ہے، ان کا قصور کورنگی لانڈھی میں عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد تھی جب کہ دوسری طرف دھرنے والی تمام سیاسی قوتوں کو نظر انداز کیے عوام کو تاریک دور میں رکھنے پر بضد ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔