(پاکستان ایک نظر میں) - بے وقت کی ’بغاوت‘

حسنین انور  پير 1 ستمبر 2014
جاوید ہاشمی اور عمران خان کا ’یارانہ‘ جتنا تیزی سے بنا شاید اس رشتے میں اتنی ہی تیزی سے دراڑ آئی. شاید اِس کی وجہ بار بار کی بغاوت ہی ہے۔ فوٹو: فائل

جاوید ہاشمی اور عمران خان کا ’یارانہ‘ جتنا تیزی سے بنا شاید اس رشتے میں اتنی ہی تیزی سے دراڑ آئی. شاید اِس کی وجہ بار بار کی بغاوت ہی ہے۔ فوٹو: فائل

’بے وقت کی راگنی‘ تو آپ نے سنی ہوگی مگر کسے معلوم تھا کہ ’بے وقت کی بغاوت ‘ بھی دیکھنا پڑے گی اور بغاوت بھی کس موقع پر جب وقت کا طارق بن زیاد (جی ہاں تذکرہ عمران خان کا ہی ہورہا ہے) اپنی کشتیاں جلا چکا ہے، وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں پر ’آگے کنواں اور پیچھے گہری کھائی‘ ہے ایسے میں ہمارے بزرگ باغی محترم اور قابل صد احترام جاوید ہاشمی کو نہ جانے کیا سوجھی کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک اور بغاوت کر ڈالی۔

جاوید ہاشمی نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں قید کاٹی اور اس دوران انہوں نے اپنی مشہور تصنیف ’باغی‘ لکھی اور سچ میں یہ ثابت کیا کہ وہ ایک باغی ہیں جوکہ جمہوریت کے لئے اپنی جان تک قربان کردینے کا حوصلہ رکھتے ہیں جوکہ قید و بند کی صعوبتوں سے نہیں گھبراتے، جو کہ جیل میں مچھروں سے نہیں ڈرتے اور اپنے وطن میں رہنا پسند کرتے ہیں چاہے ان کو پابند باسلاسل ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔

جاوید ہاشمی نے جمہوریت کے لئے بہت زیادہ قربانیاں دیں جن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا یا پھر یوں کہہ لیں کہ یاد رکھا جاسکتا ہے۔ ان کے بارے میں یہ شعر بھی فٹ بیٹھ سکتا ہے کہ

باطل سے ڈرنے والے اے آسمان نہیں ہم
کئی بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا

جاوید ہاشمی نے پہلے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور پھر اپنی اس چہیتی پارٹی یعنی مسلم لیگ ن سے راہ بغاوت اختیار کی جس کی خون سے انہوں نے آبیاری کی تھی، انہوں نے ن لیگ کے ساتھیوں کے ساتھ اچھے اور برے دونوں قسم کے دن دیکھے اور اس وقت برے دن دیکھے جب ان کی لیڈر شپ بڑے سکون و آرام سے ’جلاوطنی‘ کاٹ رہی تھی۔

جاوید ہاشمی نے اپنی اس چہیتی پارٹی اور اس کے لیڈر دونوں سے بغاوت کی اور ایک دن سب یار دوستوں کے لاکھ روکنے کے باوجود عمران خان کے قافلے میں شریک ہوگئے۔ یہ وہ موقع تھا جب عمران خان کا سونامی کراچی سے ٹکرا رہا تھا، وہ جلسہ جاوید ہاشمی کی بغاوت کے نام رہا، پورا جلسہ ’باغی باغی‘ کے نعروں سے گونجتا رہا ۔ کرسی، اقتدار، عہدے و غیرہ انسان کی زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ ان کے لئے اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اور کچھ ان کو ٹھوکر مارکر اپنا ایمان بچا لیتے ہیں۔

جہاں تک میں سمجھتا ہوں جاوید ہاشمی دوسری قسم کے لوگوں میں سے ہیں جوکہ اپنے ایمان، اصولوں، آدرشوں کو بچانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ جمہوریت کے لئے ان کی جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں اور وہ مارشل لاء کے کتنے خلاف ہیں یہ بھی کوئی راز نہیں ہے۔

جاوید ہاشمی اور عمران خان کا ’یارانہ‘ جتنا تیزی سے بنا شاید اس رشتے میں اتنی ہی تیزی سے دراڑ آئی۔ کب کیوں اور یہ سب کیسے ہوا، اس بارے میں کچھ کچھ جھلکیاں ہارون رشید کے کالموں سے ملتی رہیں، اس میں کچھ تلخیاں بھی تھی مگر میرا دل کبھی ان چیزوں کو نہیں مانا کیونکہ جب آپ کسی کو اپنے دل کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں تو پھر اس سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی امیدوں کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا۔

عمران خان کی پوری زندگی فائٹ سے عبارت رہی ہے، ہمت ہارنا اس انسان نے شاید سیکھا ہی نہیں ہے اور اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے اس کپتان کے بارے میں جہاں تک میری معلومات ہیں وہ اپنے کرکٹ کے دور میں بھی کوچ پر یقین نہیں رکھتے تھے ہمیشہ اپنی شرائط پر اپنے معیار کی کرکٹ کھیلی اور سیاست کی فاسٹ اور باؤنسی پچ پر بھی وہ اسی انداز میں بیٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ذکر جاوید ہاشمی کا ہورہا ہے ، وہ کئی بار عمران خان سے روٹھے اور ان کو ’منا‘ بھی لیا گیا مگر اس بار باغی کی بے وقت کی بغاوت نے شاید کپتان کے ’ٹیمپرامنٹ‘ کو بھی اتھل پتھل کرکے رکھ دیا تبھی تو وہ سرعام سب کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’ہاشمی صاحب آج سے میرے اور آپ کے راستے جدا ہوگئے‘۔

یہ کسی طور بھی ایک اچھی خبر نہیں، دوستی اگر دل سے ہوتو بڑی سے بڑی رنجش کو بھی دل کی چوکھٹ عبور نہیں کرنے دی جاتی اور اگر یہ دوستی صرف نمائشی اور بناوٹی رہ جائے تو پھر بیچ چوراہے میں بے نقاب ہوتی ہے۔آزادی مارچ کو وزیراعظم ہاؤس کی جانب کوچ کرنے کا حکم دینے سے قبل کنٹینر کی چھت پر عمران خان اور جاوید ہاشمی کے درمیان ہونے والی بات چیت کو پوری دنیا نے دیکھا ۔ اگلے روز جاوید ہاشمی نے انتہائی منجھا ہوا سیاستدان ہونے کے باوجود جلدی بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی شاٹ کھیل لی جس پر وہ خود بھی ضرور پشیمان ہوئے ہوں گے۔

ہاشمی کا خیال تھا کہ رات کو پارلیمنٹ کے قرب و جوارمیں کچھ ہوا اس کے بعد فوج کا آنا ٹھہر گیا ہے، ان کو یہ شک تھا کہ عمران خان کو آگے بڑھنے کا اشارہ فوج کی جانب سے موصول ہوا جوکہ شیخ رشید لے کر آئے، ان کو یہ یقین ہوچکا تھا کہ عمران خان ، نوازشریف کو ہٹانے کے لئے فوج کو بھی قبول کرنے کو تیار ہوگئے ہیں، اس لئے انہوں نے ہنگامی طور پر پریس کانفرنس کی تاکہ شام سے پہلے وہ پوری دنیا کو بتادیں کہ اگر مارشل لا لگا تو اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہوگا بلکہ انہوں نے فوج کی مداخلت سے پہلے ہی اس کی ذمہ داری واشگاف الفاظ میں عمران خان پر عائد بھی کردی۔

اس پریس کانفرنس میں جاوید ہاشمی نے کپتان پر جو چارج شیٹ لگائی اس کا لب لباب یہی تھا کہ تحریک انصاف میں کوئی جمہوریت نہیں، عمران خان کو سب روکتے رہے مگر وہ وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھے، اگر وہ مزید عمران خان کا ساتھ دیتے تو قوم ان کو بھی معاف نہ کرتے اور چونکہ مارشل لا کا وقت آچکا اس لئے اس کی مکمل طور پر ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔
عمران خان نے تو خیر ان کی باتوں کو مختصر مگر جامع جواب دے دیا مگر رات کو فوج کی جانب سے آنے والا بیان، ان کا سیاست سے خود کو دور رکھنے کا اعلان، سیاسی قیادت کو اپنے معاملات جلد سے جلد اور بغیر تشدد کے حل کرنے کی ہدایت اور آئین کے تحفظ کے عزم کا اظہار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ باغی کی بغاوت اس بار بے وقت کی راگنی ثابت ہوئی، ان کی اس جلد بازی نے ان کی اپنی پارٹی اور اس کے لیڈر کو بے توقیر کیا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں ’باغی‘ سوچتا تو ہوگا کہ اس نے یہ کیا کیا؟ کیوں کیا؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔