سیاسی پس منظر رکھنے والے شوبز فنکار

خرم سہیل  منگل 2 ستمبر 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

دنیا بھر میں ذرایع ابلاغ سب سے زیادہ منافع جس شعبے میں کماتے ہیں، وہ انٹرٹینمنٹ ہے، یعنی تھیٹر، فلمیں، ڈرامے، کھیل اور دیگر فنون لطیفہ کی سرگرمیاں، جن کی وجہ سے ان کی دال روٹی چلتی ہے، حتیٰ کہ پڑوسی ملک بھارت بھی اپنی فنی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک بڑی ثقافتی صنعت کا مالک ہے اور پوری دنیا میں اس کے ذریعے نہ صرف پیسے کما رہا ہے، بلکہ اپنی جعلی جمہوریت کا راگ الاپنے کے ساتھ ساتھ اپنی پوجاپاٹ کی عکاسی بھی خوب خوب کرتا ہے، لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں کے ذرایع ابلاغ کی کمائی سیاست اورسیاست دانوں کی مرہون منت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دھرنا شوز کئی ہفتے تک مسلسل چلتے رہے۔ دیکھنے والے دیکھتے رہے اور دکھانے والے بھی دکھاتے رہے۔ شاید انتخابات کے موسم میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ صحافیوں کو گھر سے آنے کا وقت تو پتہ ہو مگر جانے کی خبر نہ ہو۔ ذرایع ابلاغ میں کام کرنیوالے ملازمین کی ڈیوٹیوں میں شفٹیں لگائی گئیں تاکہ دھرنوں کا کوئی نظارہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو سکے۔ پاکستانی ذرایع ابلاغ کی تاریخ میں سب سے طویل میڈیا کوریج پر کسی اور انقلاب کا تو پتہ نہیں، البتہ میڈیا میں یہ انقلاب ضرور آگیا کہ کئی موقعوں پر پہلی مرتبہ چینلزکو اپنے قیمتی اشتہارات بھی چھوڑنے پڑے۔

اس ساری صورت حال میں دلچسپ بات عمران خان کے دھرنے میں ثقافتی تڑکے کا رنگ تھا۔ مثال کے طور پر دھرنوں میں سیاسی خطابات کے دوران پوپ موسیقی، ملی نغمے اور قوالیوں سے حاضرین کے لہو کو گرمایا جاتا رہا۔ آزادی مارچ میں فنکار برادری بھی حصہ ڈالنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔

’’دھرنا، کچھ نہ کرنا‘‘ کے سیاسی تماشے میں عملی طور پر جن فنکاروں نے حصہ لیا، اس کی پہلی صف میں گلوکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، ابرار الحق، سلمان احمد، نجم شیراز، مظہر راہی اور نعمان جاوید شامل ہیں۔ دیگر فنکاروں میں فلم ’’وار‘‘ کے ہدایت کار بلال لاشاری، اداکارہ عروا، اداکار کاشف محمود، عمران عباس، حمزہ علی عباسی اور چاچا کرکٹ بھی شامل ہیں، جب کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے جن لوگوں نے تحریک انصاف کے اس دھرنے کو سراہتے ہوئے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے یا ان کی پسندیدگی کا پلڑا عمران خان کی سیاست کی طرف جھکا ہوا ہے، وہ گلوکار شہزاد رائے، شاہ زمان، فرحان سعید، ہارون، علی عظمت، بلال مقصود، فیصل کپاڈیا، عینی خالد، اداکار، ساجد حسن، فہد مصطفی، شمعون عباسی، ہمایوں سعید، ایمان علی، صنم بلوچ، وقار ذکا، کرکٹر وسیم اکرم، عمران نذیر، اسکواش کے کھلاڑی جہانگیر خان، سابق گلوکار اور اب مولانا جنید جمشید ہیں۔

دھرنے کے ابتدائی دنوں میں جس گیت پر بے شمار بھنگڑے ڈالے گئے، وہ گلوکار مظہر راہی کی آواز میں گایا گیا گیت ہے، جب کہ علی عظمت کی آواز میں جنون بینڈ کے زمانے کی ریکارڈ کی گئی نصرت فتح علی خان کی قوالی ’’اللہ ہو‘‘ کی گونج بھی مستقل سنائی دیتی رہی اور اسی گلوکار کی آواز میں ’’ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار‘‘ کا گیت بھی بار بار سننے کو ملتا ہے۔ کراچی کے معروف اداکار گلاب چانڈیو اور ڈراما نگار حسینہ معین نے بھی اپنی سیاسی وابستگی تحریک انصاف سے ظاہر کی ہے۔

ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو ماضی قریب میں مسرت شاہین سیاست کے خارزار میں قدم رکھتی ہیں۔ عتیقہ اوڈھو کی وابستگی بھی آل پاکستان مسلم لیگ سے ہوتی ہے اور پھر ان کی شادی تحریک انصاف کے ایک رہنما سے ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ (قائداعظم) سے ابرار الحق پینگیں بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں اور پھر تحریک انصاف میں کود جاتے ہیں۔

مسلم لیگ (نوازشریف) میں اداکارہ کنول اور طارق عزیز کی شمولیت بھی سب کو یاد ہوگی۔ اس موقع پر جہاں نواز شریف کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں، وہیں لاہور تھیٹر کے فنکار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، ایک تھیٹر ہال میں اسٹیج پر سخاوت ناز، ناصر چینوٹی اور دیگر نے مسلم لیگ (نواز) کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور حاکم وقت کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔

اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے ثقافتی ستاروں میں مصطفیٰ قریشی اور مہتاب اکبر راشدی سرفہرست ہیں جب کہ متحدہ قومی موومنٹ میں شامل خوش بخت شجاعت، کراچی تھیٹر کے کئی نامور اداکاروں سمیت شوبز کے کئی معروف نام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ لال بینڈ کے بانی اور گلوکار تیمور رحمان بھی کسان پارٹی کی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں، جب کہ معروف گلوکار جواد احمد کے بقول انھوں نے بھی ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی ہے، جس کی علامتیں ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح ماضی میں حبیب جالب کی لہو گرما دینے والی شاعری اور ترنم بھی سیاسی جلسوں کی رونق بڑھاتا رہا ہے۔

عمران خان نے اپنے دھرنے میں بے شمار خطابات کے دوران ایک خطبے میں باقاعدہ مخاطب کر کے شان شاہد سمیت کئی اداکاروں اور شاہد آفریدی سمیت کئی کھلاڑیوں کو بھی دھرنے میں شرکت کی براہ راست نام لے کر دعوت دی تھی، مگر انھوں نے اس دعوت نامے پر کان نہیں دھرے۔ ہالی ووڈ کو لے لیں تو جنہوں نے شوبز میں شہرت کمائی اور سیاست میں بھی قدم رکھا۔ ایسے ہی کچھ ناموں کا تذکرہ کیا جائے تو ان میں سرفہرست معروف اداکار آرنلڈ شوازنیگر ہیں، جن کی یادگار فلمیں لوگ کبھی نہیں بھول پائیں گے، مگر انھوں نے کیلی فورنیا کے گورنر کی حیثیت سے جو دورگزارا، وہ بھی یادگار ہے۔

مثال کے طور پر امریکا کے سابق صدر اور عالمی شہرت یافتہ رونالڈ ریگن ہیں، جو سیاست میں آنے سے پہلے ’’اسکرین ایکٹرگلڈ‘‘ نامی ایک تنظیم کے سربراہ بھی رہے، جو شوبز سے وابستہ افراد کے حقوق کے لیے سرگرم تھی۔ لہٰذا ایسے بہت سارے نام ہیں، جن کا کسی نہ کسی طرح تعلق سیاست اور شوبز دونوں سے مساوی طور پر بنتا ہے۔ برطانیہ سے ہم اگر دیکھیں تو گلینڈا جیکسن دکھائی دیتی ہیں، جنہوں نے اداکارہ کی حیثیت سے نام کمایا، برطانیہ کا شاہی اعزاز بھی حاصل کیا اور سیاست میں قدم رکھنے کے بعد مستقل مزاجی سے اسے جاری رکھا۔ اسی طرح جان وائن، مارلن برانڈو، چارلٹن ہسٹن، کلائنٹ ایسٹ ووڈ، گیری کوپر، فریڈ تھیمسن، جان وائٹ اور باب ہاپ وغیرہ سیاست کے ہمدردوں میں سے رہے ہیں۔

ہالی ووڈ کی دیگر دس بڑی شخصیات، جن میں اداکار، ہدایت کار اور دیگر شوبز کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا مالی واخلاقی تعاون سیاسی جماعتوں کو حاصل ہے، ان میں ٹونی ڈنزا، سارا مچل گلر، پارٹریکا ہیٹن، ایڈم سینڈلر، اینگی ہارمون، ہیدر لاکلیر، جان ریور، بروس ولز، شینن ڈوھرتی شامل ہیں۔ ایسے اور بہت سارے نام ہیں لیکن یہاں سب کا تذکرہ ممکن نہیں، صرف چند ایک نام اور مثالوں سے موضوع کی مناسبت سے ذکر کیا ہے۔

بالی ووڈ میں شوبز سے سیاست کی طرف آنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے، جن میں سے چند نام یہاں درج کر رہا ہوں، ان میں پاریش راول، جاوید جعفری، کرن کھیر، راج ببر، ریکھا، سنجے دت، ونود کھنہ، گووندا، متھن چکروتی، جیاپرادا، ہیما مالنی، دھرمیندر، امیتابھ بچن، جیابچن، شبانہ اعظمی، بپی لہری، راکھی ساونت اور دیگر شامل رہے ہیں۔ بھارت میں ایک بہت بڑی تعداد ایسی فلموں کی ہے، جن کا بالخصوص موضوع ہی سیاست ہے اور ایسی فلمیں اکثر باکس آفس پر کامیاب ٹھہری ہیں۔

عہد حاضر میں بہت سارے شوبز کے فنکاروں کو عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ کئی دنوں سے جاری عوامی تحریک کے انقلاب مارچ اور تحریک انصاف کے آزادی مارچ نے ٹیلی ویژن کے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے۔ ماضی میں جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سیاست دان اندر سے فنکار ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی وجہ شہرت سیاست ہے اور ان کو جس فن پر مہارت حاصل ہے، اس کو عوامی زبان میں دھوکہ کہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔