انٹرپول کی عمارت نقب زنوں کے نشانے پر!

غ۔ع  منگل 2 ستمبر 2014
تین ہفتے کے دوران چوری کی پانچ وارداتیں۔ فوٹو: فائل

تین ہفتے کے دوران چوری کی پانچ وارداتیں۔ فوٹو: فائل

انٹرنیشنل کریمینل پولیس آرگنائزیشن (انٹرپول) ایک عالمی تنظیم ہے جو بین الاقوامی سطح پر مجرموں کی گرفتاری میں مدد دیتی ہے۔

اس تنظیم کا قیام 1923 ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت اس کا نام انٹرنیشنل کریمینل پولیس کمیشن تھا۔ انٹرپول کا صدر دفتر فرانس کے شہر لیون میں ہے جب کہ کئی ممالک میں اس کے ذیلی دفاتر بھی قائم ہیں۔ اراکین کی تعداد کے لحاظ سے انٹرپول اقوام متحدہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے۔ انٹرپول کے اراکین کی تعداد 190 ہے۔

انٹرپول کو سیاسی لحاظ سے غیرجانبدار رکھنے کے لیے اس کا آئین اسے سیاسی، فوجی، مذہبی، اور نسلی بنیاد پر مبنی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے باز رکھتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں دہشت گردی، انسانوں، منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، مالی بدعنوانی سمیت مختلف جرائم کی بیخ کنی شامل ہے۔ انٹرپول کا عملہ بہترین تربیت یافتہ اور قابل افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔

عالمی ادارے کا ذیلی دفتر جنوبی افریقا میں بھی ہے۔ اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ دفتر کی عمارت میں تین ہفتوں کے دوران پانچ بار نقب لگائی جاچکی ہے۔ چوروں کی دیدہ دلیری اور عدم گرفتاری نے انٹرپول کے اہل کاروں سمیت مقامی پولیس کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ثبت کردیا ہے۔ ایک عالمی روزنامے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چور عمارت سے لیپ ٹاپ، کیمرے اور دیگر الیکٹرانی آلات چُرا کر لے گئے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایک واردات میں وہ عمارت کے اندر انٹری کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے داخل ہوئے جو کہ عمارت میں کام کرنے والے عملے کے پاس ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس عمارت میں انٹرپول کے علاوہ جنوبی افریقی پولیس کے انسداد بدعنوانی یونٹ ’’ہاکس‘‘ کا دفتر بھی موجود ہے، اور نقب زنوں نے تازہ واردات میں اسی دفتر کو نشانہ بنایا ہے۔

پولیس کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چور صرف قیمتی الیکٹرانک آلات چرانے آئے تھے۔ پولیس کے ترجمان سولومن میک گیل کہتے ہیں،’’ ہمیں شبہ ہے کہ حالیہ واردات میں وہی گروہ ملوث ہے جس نے پہلی واردات کی تھی۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ چور کمپیوٹروں میں موجود معلومات میں دل چسپی رکھتے ہوں۔ ہماری رائے کے مطابق انھیں قیمتی آلات فروخت کرکے رقم حاصل کرنے کی جلدی ہوگی۔‘‘

تاہم انٹیلی جنس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے ہونے والی وارداتیں اس بات کی علامت بھی ہوسکتی ہیں کہ نقب زن مخصوص معلومات حاصل کرنے آئے تھے، اور ناکام ہونے کی صورت میں بار بار کوشش کرتے رہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پہلی واردات میں چرائے گئے لیپ ٹاپ اشیا گروی رکھنے والی ایک مقامی دکان سے بازیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم پولیس ابھی تک ان وارداتوں میں ملوث چوروں کو پکڑنے میں کام یاب نہیں ہوسکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔