(پاکستان ایک نظر میں) - ٹرک کی بتی

اعظم طارق کوہستانی  منگل 2 ستمبر 2014
اسلام آباد میں ایک میلہ سجا کر پوری قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا جس کے جہاں بہت سارے نقصانات ہوئے وہیں وزیرستان کے متاثرین کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے کہ کہ اب کسی کو اُن کی خیریت پوچھنے کا بھی وقت نہیں۔ فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد میں ایک میلہ سجا کر پوری قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا جس کے جہاں بہت سارے نقصانات ہوئے وہیں وزیرستان کے متاثرین کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے کہ کہ اب کسی کو اُن کی خیریت پوچھنے کا بھی وقت نہیں۔ فوٹو: رائٹرز

سمجھ نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے؟ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کو بے وقوف بنانا کتنا آسان کام ہے۔ ہر شخص چالاک بیوی بنا ہوا ہے۔ ٹسو بہا کر اپنا کام نکلوانا کوئی ہمیں استعمال کرنے والوں سے پوچھے۔

ابھی ابھی یاد آیا۔۔۔بھئی سنا ہے کوئی آپریشن ضرب عضب چل رہا تھا۔تھا پر پریشان مت ہوں ۔۔۔۔ یہ تھا اِس لیے ہے کہ آپریشن کی کامیابیوں کی خبر تو ہمیں ٹی وی سے ہی ملا کرتی تھی اور خبروں سے ہم آگاہ ہوتے تھے کہ روزانہ کی بنیاد پر دہشتگردوں  کا کس قدر نقصان ہورہا ہے ۔۔۔ مگر اب یہ خبریں آنا بند ہوگئی ہیں تو  کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ وہ آپریشن  ابھی بھی چل رہا ہے یا۔۔۔!آگے جو لکھا ہے آپ اسے ڈیش ڈیش مت سمجھ لیجیے گا۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے لوگوں نے ماموں اور سالے جیسے مقدس رشتوں کے ساتھ کیا ہے۔

14 اگست سے پہلے تک ضرب عضب چل رہا تھا۔۔۔لیکن اب پتا نہیں کس پر اور کیا غضب گر رہا ہے کوئی خیر خبر نہیں۔۔۔سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپریشن کے حوالے سے خبروں کی تشریات بند ہوگئی ہیں یا خود آپریشن بھی؟  ہماری تو اولین خواہش یہی ہے کہ آپریشن جلد از جلد اپنے اختتام کو پہنچے تاکہ وہ لاکھوں لوگ جو اپنا گھر بار چھوڑ کر بے گھر ہوچکے ہیں اپنی اپنی منزلوں تک پہنچ سکیں  شاید یہی وجہ ہے کہ پوری قوم کی نگاہیں اس جانب اٹھی ہوئی تھیں کہ آیا فوج اتنی مخالفت کے باوجود جو آپریشن کر رہی ہے اس کے اثرات کیا ہوں گے۔۔۔ اور پاکستانی فوج اس سے ثمرات سمیٹ سکے گی بھی یا نہیں۔۔۔

لیکن۔۔۔!

ہاے افسوس کہ کلیجہ  پیٹنے کو جی چاہنے لگا ہے۔۔۔جنگ کی اس کیفیت میں عوام کا کیا حشر ہوتا ہے اور اپنے گھروں کو چھوڑنے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ کوئی اس قبائلی عورت سے پوچھے جس نے اپنے 7 ننھے معصوم بچوں کے ساتھ ہجرت کی۔۔۔ اپنی زندگی میں دوسروں کو کھلانے والے جب خود کھانے کے لیے لائن میں لگتے ہیں تو اس وقت ان کے دل کا حال یا تو وہ فرد خود جانتا ہے یا پھر اس کا اور ہمارا خدا۔۔۔آپ ذرا آپریشن کے متاثرین کے پاس جا کر اس معاملے میں ان کی مشکلات پوچھے تو دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔  حالت اس یتیم کی سی ہوگئی جس کے سر سے باپ کا سایہ چھیننے کے بعد عزیز رشتہ داروں نے بھی دھتکار دیا۔۔۔

ہم کتنے بے حس لوگ ہیں۔ لوگوں کو بیچ چوراہے پر چھوڑدیا ہے۔ کیا کوئی بتانا پسند کرے گا کہ آپریشن کی کیا صورت حال ہے۔۔۔؟ کیا دشمن کاقلع قمع کردیا گیا ہے۔ کتنے دہشت گرد مارے گئے۔ کتنے گرفتار ہوئے؟ گرفتار ہونے والے کہاں ہیں؟ قبرستان جیسی خاموشی ہے جو لبوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اسلام آباد میں ایک میلہ سجا کر پوری قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا گیا ہے۔ نجانے اس کھیل کے پیچھے کون سے کھیل کھیلے جارہے ہیں۔آپریشن ضرب عضب کی تفصیلات سے نگاہیں چرانے کی کوششیں ہیں یا پھر یہ بکھیڑا پرویز مشرف کے لیے پالا گیا۔۔۔

معاملہ جو بھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس قوم کو بے وقوف بنانا آسان ہے۔۔۔ انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نا چنداں کوئی مشکل نہیں۔۔۔اب تو جاوید ہاشمی نے بھی کہہ دیا کہ دھرنا ڈرامہ اسکرپٹ کا نتیجہ ہے تو یقینی طور پر اِس کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے کیونکہ اِس کی وجہ سے جہاں بہت سارے نقصانات ہوئے وہیں وزیرستان کے متاثرین کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔  پیالی میں جو طوفان مچا کر ستمبر میں جو کھیل کھیلا جانے والا تھا وہ بھی طشت ازبام ہوگیا۔۔۔ لیکن یہ اچھا ہوا کہ لوگوں کے ضمیر بروقت جاگ گئے۔۔۔ اگر یہ ضمیر افضل خان کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد جاگتاتو پھر یہ بھی دنیا کا عجیب وغریب ضمیر کہلاتا۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔