- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
(خیالی پلاؤ) - آخری التجاء
20 سالہ ظہیر ایک نہایت ایماندار، خودار،فرمابرداور حوصلا مند نوجوان تھا جو کے اپنے ماں باپ اور بے بہن بھائیوں سے اس قدر محبت تھی کہ وہ سارے دکھ خود برداشت کر تا لیکن گھر والوں پر آنچ نہیں آنے دیتا۔اس کے نزدیک زندگی کا مقصد ہی گھر والوں کوں خوش رکھنا تھا۔ ظہیر کے دو بھائی اور ایک بہن میں سب سے بڑا تھا۔اس کا باپ ایک فارغ آدمی تھا جس کا کام ہر وقت ظہیر کی ماں سے لڑنا تھا۔
ظہیر کو لڑائی سے نفرت تھی جب بھی اس کے ماں باپ لڑتے تو ظہیر روتے روتے کبھی ماں کو تو کبھی باپ کو واستے دیکر لڑائی سے منع کرتا، لیکن وہ اس کی ایک نا سنتے ۔ ظہیر کی ساری رات روتے ہوئے گزرتی، ماں باپ کی لڑائی نے ظہیر کو اند ر سے توڑ کے رکھ دیا تھا۔ وہ دن رات ایک ہی خواب دیکھا کہ ا س کے بہن بھائی بڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جائیں اور ماں باپ ساری نفرتیں بھلا کر سکون کی زندگی گزاریں۔ وقت گزرتا گیا ظہیر اندر ہی اندر جلتا رہا۔
ایک دن ظہیر کام پر جا رہا تھا کہ اچانک گرپڑا، لوگوں نے اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹر نے اسے بتایا کے اسے کینسر کی بیماری ہے۔ یہ سن کر اس کے اندر اٹھنے والے طوفان نے اسے چور چور کر دیا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور دفتر چلا گیا۔ شام میں گھر آکر خود کو کمرے میں بند کرلیا اور ساری رات سوچتا رہا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے گھر والوں کا کیا ہوگا؟۔ ظہیر نے فیصلہ کیا کہ وہ اکیلے بیماری کا مقابلہ کرے گا ابھی تو اسے بہن کی شادی کرنی ہے، بھائی کو پڑھانا ہے وہ کیسے ہمت ہار سکتا ہے؟
کچھ عرصے بعد ظہیر کی ہمت نے جواب دے دیا ۔ اس کے سارا سارا دن بستر پر پڑے رہنے کی وجہ سے گھر والے تنگ تھے آخر ایک دن اس کا باپ زبردستی ظہیرکو اسپتال لے گیا جہاں اسے پتا چلا کہ ظہیر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے۔یہ سنتے ہی اس کے گھر والوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔
دو دن بعد ظہیر کی طبعیت مزید خراب ہو گی، بھائی اور باپ ظہیر کو اسپتال لے جانے کے لئے جیسے ہی اٹھانے لگے ظہیر سسکیاں لیتے ہوئے بول پڑا اب میرے پاس اور وقت نہیں ہے ۔ ابا جان میں نے زندگی میں آپ سے کبھی کچھ نہیں مانگا آج جاتے جاتے میری آخری التجا پوری کردیں یہ لڑائی جھگڑے ختم کر دیں،آج میں آپ دونو ں کی نفرتیں دور کرتے کرتے میں نے اپنی زندگی ہار دی۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے ۔ اگر آپ دونوں مجھ سے واقعی محبت کرتے ہیں تومیری اس التجا کو نبھاتے رہیئے گا میری روح کو سکون ملے گا۔ان الفاظ کے ساتھ اس کے دکھوں سے بھرے دل کی دھڑکن اور آنسوں سے بھری آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے کیے بند ہوگئیں۔
میری ان تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہر وقت لڑتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خدارا اپنے لئے نہ صحیح اپنی اولاد کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنے اور اس مقدس رشتے کو نبھانے کی کوشش کریں۔ والدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے نہ صرف ان کے بچوں کی شخصیت، ان کا مستقبل بلکہ ان کی زندگی بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اب بھی وقت ہے آپس کی نفرتوں کو بھلا کر ایک مکمل زندگی کا آغاز کریں ورنہ یہ نہ ہو کہ آپ بھی کسی ظہیر کی قبر پر بیٹھے آنسو بہارہے ہوں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔