(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ریویو؛ راجا نٹورلال

شہباز علی خان  منگل 2 ستمبر 2014
 تکلیف میں ساتھ دینے والے کو بھلے ایک بار بھول جاؤ لیکن تکلیف دینے والے کو کبھی مت بھولنا۔ فوٹو فیس بک

تکلیف میں ساتھ دینے والے کو بھلے ایک بار بھول جاؤ لیکن تکلیف دینے والے کو کبھی مت بھولنا۔ فوٹو فیس بک

آپ نے راجا نٹورلال دیکھی ہے؟

نہیں تو، مگر کیا خاص بات ہے اس میں؟

بات تو میرے کو بھی ابھی تک سمجھ نہیں آئی مگر کچھ دن پہلے جو سواریاں بیٹھ رہی تھی ان میں سے کوئی تو اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتا تھا اور کوئی دیکھنے کے بعد دختر پاکستان کا یوں بے وقعت سے کردار پر دل کو جلا رہا ہوتا تھا کہ جناح کے پاکستان پر یہ دن بھی آنا تھا۔ایک صاحب نے تو حد ہی کر دی کہ انہوں نے پاکستانی لی جینڈ محمد علی کی فلم کلرک سے آغاز کیا اور پھر ہوتے ہوتے ورثہ کی مہرین راحیل، وینا ملک، حنا کی زیبا بختیار اور میرا تک کا تجزیہ پیش کر دیا،اورظاہر ہے کہ جو فلم وہ تازہ تازہ دیکھ آرہے تھے راجا نٹورلال وہ بھی ان کی تنقیدی نظر سے محفوظ نہ رہ سکی کہ جو بھی تھا کردار تو سوچ کر لیتی وہ ایک پاکستانی پہلے اور اداکارہ بعد میں ہے،ایک بات تھی ان مولانا صاحب کو فلم پسند ضرور آئی تھی۔صاحب ایک بار دیکھو تو سہی میں جو کہہ رہا ہوں۔

یہ تھی وہ گفتگو جو لیاری سے نکلتے وقت ٹیکسی ڈرائیور نے کی،ہمارے حجام اور ڈرائیورز خاموش بیٹھ ہی نہیں سکتے۔میرے ایک عام سے سوال نے اس کا ٹیپ آن کر دیا،مگر جو بھی تھا اب میں نے وہ فلم دیکھنے کا تہیہ کر ہی لیا تھا،ٹکٹ لی اور ہال میں جا کرپاپ کارن کی بکٹ سنبھالے بیٹھ گئے۔میرے ذہن میں 1979 کی مسٹر نٹورلال تھی کہ شاید اس ٹائپ کی ہوگی ،مگر آپ خود بھی دیکھیں ناں جا کر پھر بات کریں گے اس پر۔ اچھا چلیں میں آپکی کچھ مشکلات آسان کر دیتا ہوں۔

یو ٹی وی موشن پکچر ز کے بینر تلے ڈائریکٹر کنال دیش مکھ، سٹوری رائٹر پرویز شیخ اور سنجے مینن کے بے ساختہ ڈائیلاگز کو فلمی کاسٹ عمران ہاشمی ( راجا نٹور لال)، عمائمہ ملک( ضیا)، پاریش راول( یوگی)، کے کے مینن( واردھا یادو) اور دیپک تیجوری( راگھوو) نے صرف ہونٹوں سے ہی نہیں ادا کیا ہے بلکہ ادائیگی کے ساتھ ان کے تاثرات ایک بہترین اداکاری کی صورت میں دیکھنے کو ملے۔

کہانی ہے اس راجا کی جو ہاتھ کی صفائی کا ماہر تھا اورجس کے پاس سپنوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا،راجا کو صرف ایک موقع کی تلاش تھی اور یہ شارٹ کٹ اسے انڈر ورلڈ کے وردھا کی صورت میں ملتا ہے،راجا کو بچپن سے ہی راگھوو نے پالا ہوتا ہے وہ اس کا معمولی معمولی جرائم میں ساتھی بھی ہوتا ہے وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر راجا خواہشوں کے جزیرے کا بادشاہ ہے، وہ نہیں مانتا اور وہ ہوشیاری سے وردھا کی رقم لے اڑتے ہیں مگر اس میں راگھوو مارا جاتا ہے۔

فوٹو؛ فیس بک

اب روایتی فلموں کی طرح بدلے کی آگ بھڑک جاتی ہے اور اس کے لئے وہ یوگی کے پاس جاتا ہے جس کا دماغ بہت تیز ہوتا ہے گرو اور چیلے کا یہ سنگم دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ فلم آگے بڑھتی ہے اور پھر راجا یوگی کی تربیت میں وردھا کا اعتماد حاصل کرتا ہے ، وہ دونوں کرکٹ جو وردھا کی کمزوری ہوتی ہے اس کو سیڑھی بنا کر اسے ساری دولت سے محروم کر دیتے ہیں۔اورہمیشہ کی طرح پولیس اور انڈر ورلڈ میں ایک دوسرے کو سنبھالا دیتے ہیں۔

ارے ہاں وہ ضیا تو رہ ہی گئی،اس کا کردار اس میں ایک رقاصہ کا ہے جس میں انہوں نے کھل کر جوہر دکھائیں ہیں،ڈائیلاگ کی ڈلیوری بہت عمدہ تو نہیں مگر گزارہ ہے۔مجھے تو گانوں میں ان کی اداکاری بہتر دکھائی دی۔

فوٹو؛ فیس بک

تیرے ہوکے رہیں گے۔ دکی تکی۔ کبھی روحانی کبھی رومانی۔نمک پارے۔بہترین نہیں لیکن سنے میں کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔فلم کی موسیقی یوون شرما راجا نے دی ہے۔جبکہ گلوگاروں میں ارجیت سنگھ، میکا سنگھ، شویتا پنڈت، بینی دیال، ممتا شرما، اور انوپم امود شامل ہیں۔

اس فلم میں بہت سے سبق ملتے ہیں اور اس فلم کے ڈائیلاگز بہت منفرد ہیں جیسا کہ؛

حساب حساب ہے دوستی پانی اور پیسہ تیل دونوں کو کبھی مکس نہیں کرتے۔

تھوڑے سے پیسے بچانا سیکھو( مجھے تو ضیاء کا یہی ایک ڈائیلاگ مضبوط لگا)

راجا۔ بچانا وہ سیکھتا ہے جو زیادہ کمانا نہیں جانتا۔

یوگی۔ کونفیڈنس جان ضرور ڈالتا ہے مگر اوور کونفیڈنس جان لے لیتا ہے۔

وردھا۔ تکلیف میں ساتھ دینے والے کو بھلے ایک بار بھول جاؤ لیکن تکلیف دینے والے کو کبھی مت بھولنا۔

جو بھی ہے آپ میری اس رائے سے اختلاف کریں یا نہ کریں لیکن ایک غلط قدم بہت سی غلطیوں پر لا کھڑا کرتا ہے اور عملی زندگی یہ سکھاتی ہے کہ انسان خواہشات کے جزیرے میں ایک بار قدم رکھ دے تو پھر اس کا خود پر بھی اختیار نہیں رہتا ہے۔بہرحال میرا مشورہ ہے کہ آپ اسے ایک بار تو ضرور دیکھیں اور خود بھی اپنا فیصلہ دیں۔  راجا نٹورلال میں عمران ہاشمی نے پچھلی فلموں کی طرح اپنے مخصوص کرتب سے دیکھنے والے کو مایوس نہیں کیا ہے اور ہاں آخری بات فلم تو فلم ہوتی ہے ناں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔