واحد راستہ

قادر خان  بدھ 3 ستمبر 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے اور پارلیمان کو سپریم ادارہ سمجھا جائے ، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں تمام جمہوری اقدار اس سے قدرے مختلف ہے، پاکستان میں جمہوریت چھوئی موئی کے پودے کی طرح ہے ،جسے چھوتے ہی فرشتوں کے بھی پَر جلنے لگتے ہیں۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم کیوں نہیں ہو رہی ، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ عوام اپنا محاسبہ کب شروع کریں گے۔

بحث ہو رہی ہے پاکستانی قوم کی فطرت جمہورانہ نہیں ہے،ابتدا سے ہی پاکستانی قوم میں شخصیت پرستی کا رجحان ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کی بودوباش میں آمرانہ احکام کو تسلیم کرنے کی روش زیادہ ہے۔ اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ہندوستان (متحدہ پاک و ہند) پر بیرونی حکمران مسلط ہوتے رہے ہیں۔افغان،مغل سمیت انگریزوں نے ہندوستان (متحدہ پاک و ہند)پر اقلیت ہونے کے باوجود حکومت کی ہے ۔ جب انگریزوں نے ہندوستان کا بٹوارہ کیا تو مسلمانوں میں یہ خوف پیدا ہوا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو ان پر مسلط ہوجائیں گے اس لیے انھوں نے دھرنوں، مظاہروں اور جلسے جلوس کرکے پاکستان حاصل کرنے کے لیے قائد اعظم کو اپنا لیڈر بنا لیا ۔

شخصیت پرستی کا یہ سحر آج تک ہم پاکستانیوں پر حاوی ہے۔قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا یہ اثر اس قدرگہرا تھا کہ مسلم لیگ ،جس نے پاکستان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا ، اس کے دوسرے لیڈروں سے پاکستانی عوام بہت کم آگاہ ہے ۔ انگریز خود بھی قائد اعظم کی شخصیت کے سحر سے نہیں نکل پا سکا تھا ، متعدد تاریخی حوالے موجود ہیں کہ جس میں متحدہ ہندوستان میں رکاؤٹ کا ذمے دار قائد اعظم کو ٹھہرایا جاتا جاتا تھا بلکہ اب بھی انڈیا میں قائد اعظم کو ہی پاکستان کے قیام کا ’’مجرم‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارتی عوام میں شخصیت پرستی اس کے مذہب کے ساتھ مختلف شخصیات میں تقسیم تھیں اس لیے گاندھی کے ساتھ ساتھ اس کے دوسرے رہنماؤںکی آج تک ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے پرستش کی جاتی ہے۔

چونکہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اس لیے ان توہمات کے لیے اس سرزمین میں کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود شخصیت پرستی کے اس سحر سے پاکستانی عوام خود نہیں نکال سکی۔ محمد علی جناح کو قائد اعظم بنایا تو لیاقت علی خان کو قائد ملت ، فاطمہ جناح کو مادر ملت اور جب پاکستانی اقتدار کے مسند اعلیٰ پرایوب خان براجمان ہوئے تو اس وقت بھی پاکستانی عوام نے انھیں سالوں برداشت کیا اور پاک بھارت جنگ میں کامیابی کی وجہ سے انھیں قومی ہیرو بنایا لیکن پھر ان کو بھی  مظاہروں اور جلسے جلوس سے رخصت کردیا ۔

پاکستانی قوم میں ایک یہ عجیب خوبی بھی ہے کہ جب تک کوئی بھی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت اقتدار میں ہوتی ہے تو اس کی خامیاں کسی کو دکھائی نہیں دیتیں ، لیکن اس کے جانے کے بعد اس کی تمام خوبیاں یک لخت ختم ہوجاتی ہیں اور خامیوں کا پنڈروا بکس کھل جاتا ہے۔چونکہ پاکستانی عوام کو دوبارہ شخصیت پرستی کے لیے کسی نہ کسی کی ضرورت تھی اس لیے زمانے کے مدوجزر سے قائد عوام کے نام سے ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے ، اقوام متحدہ میں قرار داد کو چاک کردینے کے بعد پاکستانی عوام کو ان میں اپنی پریشانیوں کا مسیحا نظر آنے لگا ،لیکن ان کے دھرنوں ، مظاہروں اور جلسے جلسوں نے پاکستان کو ادھر ہم ادُھر تم ، کا نعرہ دے کر دو لخت کردیا لیکن پاکستانی قوم اپنی عادت کے مطابق بھول گئے کہ مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن چکا ہے ۔

وہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان کو شکست ہوئی اور اس کے نوے ہزار فوجی انڈیا نے قیدی بنا لیے ہیں ، قائد عوام نے پاکستان کو متفقہ آئین دے کر تاریخ میں خود کو زندہ رکھ لیا ، لیکن پاکستانی قوم کے ایک بار بھر دھرنوں ، مظاہروں اور جلسے جلوسوں نے انھیں تختہ دار تک پہنچا دیا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے کو اکیلا دفن کردیا گیا اور دھرنوں کے بعد جب ضیا الحق آئے پاکستانیوں نے ان میں امیر المومنین تلاش کرنا شروع کردیا ۔

اسلامی نظام کے نفاذ کے دل فریب نعرے نے پاکستانی عوام کو دھوکے میں رکھا، پاکستان کو نہ ختم ہونے والی افغان جنگ میں الجھا دیا گیا اور آج تک پاکستانی امیر المومنین کے ہاتھوں پاکستان عالمی طاقتوں کے لیے سرکس کا میدان بنا ہوا ہے جس میں ہمارے حکمرانوں کا کردار ’’جوکر‘‘ کا ہے جو اپنے چہروں کو چھپانے کے لیے رنگ روغن کرلیتے ہیں اور عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے اور وہ بہت خوش ہیں۔پاکستان میں ایک بار پھر دھرنے ، مظاہرے اور جلسے جلوس شروع ہوئے اور پھر یہاں پاکستانی عوام نے تقسیم کی راہ لی اور ایک طرف نواز شریف کو لیڈر بنایا تو دوسری جانب بے نظیر بھٹو تھیں ۔پاکستان میں تیسری بڑی پارٹی کی گنجائش بہت کم نکلتی ہے ۔

تیسری پارٹی کے بجائے پاکستان میں تیسری قوت کا رجحان زیادہ رہا ہے، اس لیے اقتدار میں کبھی پہلی قوت تو کبھی دوسری قوت ، جب ان سے تیسری قوت تنگ آجاتی ہے تو خود ہی آجاتی ہے ۔ پرویز مشرف بھی سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کے ساتھ اقتدار پر براجمان ہوئے اور سالوں پاکستانی عوام پر حکومت کرتے رہے اور ایک بار پھر دھرنوں ، مظاہروں اور جلسے جلوسوں نے انھیں رخصت کیا تو پاکستان کی پہلی قوت نے اقتدار حاصل کیا لیکن ان کی شہید جمہوریت کی قربانی کے بعداب کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی کہ پاکستانی عوام اپنی ماضی کی روایات پر قائم رہتی ، آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے خلا کو پورا کیا اور سب پر بھاری بن گئے۔بلاول زرداری کو پاکستانی مزاج کے مطابق بلاول بھٹو زرداری بنایا اور قوم کو نئی شخصیت دے دی۔

نواز شریف پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم بنے ، لیکن ان کی شخصیت متفقہ قومی شخصیت نہ بن سکی ، اس لیے پاکستانی قوم نے اپنی شخصیت پرستی کا محور عمران خان کو بنالیا اور ان سے توقعات وابستہ کرلیں ۔عمران خان کو ماضی میں کامیابی نہیں مل سکی تھی لیکن جب ان پر تیسری قوت نے ہاتھ رکھا تو کینسر اسپتال بنانے والے کے بھی دھرنے ، مظاہرے اور جلسے جلوس کامیاب ہونے لگے اور پاکستان میں قومی سطح پر اقتدار میں حصہ لینے کے لیے اب عوام کے سامنے تین شخصیات سامنے تھیں۔

نواز شریف جب اقتدار پر بغیر کسی دھرنوں ، مظاہروں اور جلسے جلوس کے بغیر براجمان ہوئے تو یہیں سے ساری گڑبڑ شروع ہوئی کہ جمہوریت کے اس چھوئی موئی کے نازک پودے نے اگر تنا ور درخت کی شکل اختیار کرلی تو پھر دھرنے ، مظاہرے اور جلسے جلوس کرکے اقتدار تبدیل نہیں کیے جا سکیں ، لہذا کینیڈین شہری کی آمد اور انقلابیوں نے ایک بار پھر پاکستان کی سابقہ روایت کو دھرایا اور دھرنوں ، مظاہروں اور جلسے جلوس کا سلسلہ شروع کردیا ۔

اب تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جمہوریت کیا بن گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں ابھی جمہوریت مستحکم نہیں ہوئی ہے ان کے سیاست دان ابھی پختہ ذہن اور جمہوریت پسند نہیں ہیں اور ان میں عدم برداشت کا مادہ زیادہ ہے۔ اس لیے ایک بار پھر سیاست دانوں کو تیسری قوت نے سمجھایا ہے ۔ چونکہ پاکستان کی سیاست میں فوج کا کردار کبھی ختم نہیں ہوا اس لیے پاکستانی عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی تھی کہ عمران خان اور طاہر کینڈی کا ڈراما جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچے۔

دھرنوں کے مقام سے خود اٹھ کر نیا پاکستان بنانے والوں کے جانے سے ان کے قوت فیصلہ کا اندازہ ساری دنیا کو ہوگیا ہے اس لیے ان پر بحث کرکے بلاوجہ الفاظ ضایع کرنا ہونگے ۔ویسے سوچنے کی بات تو ہے کہ یہ جمہوریت کا ہی ثمر تھا کہ دھرنے باز، مذاکرات کرنے کے بجائے بار بار ڈیڈ لائن دیتے رہے ، دہمکیاں دیتے رہے ، جو منہ میں آیا بولتے رہے ، لیکن شخصیت پرستی کا سحر تو ان میں بھی ہے کیونکہ ہیں تو ہم سب پاکستانی ہی، بھلا شخصیت پرستی کے سحر سے کہاں نکل سکتے ہیں۔ شخصیت پرستی کا سحر جب ختم ہوگا،جب ہم شخصیات کے بجائے ادارے مضبوط بنائیں گے اور یہی واحد راستہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔