سیاسی بحران کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ

جی ایم جمالی  بدھ 3 ستمبر 2014
دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے افہام و تفہیم اور مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔  فوٹو: فائل

دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے افہام و تفہیم اور مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی: اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں اور مظاہروں کی وجہ سے پیدا ہونے والی اعصاب شکن صورت حال نے سندھ کو بھی متاثر کیا ہے۔

سندھ کا دارالحکومت کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے۔ اسے اگر پاکستان کا معاشی انجن کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا ۔ کراچی پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کا 62 فیصد ریونیو کراچی سے جمع ہوتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سول نافرمانی کی اپیل کو سندھ کے تاجروں اور صنعت کاروں سمیت سب نے مسترد کر دیا اور وہ مسلسل ٹیکس جمع کراتے رہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ 20 روز سے ملک میں جو ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے، اس سے پاکستان کے اس اقتصادی مرکز کراچی سمیت پورے صوبے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔

درآمدات اور برآمدات پر زبردست اثر پڑا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس نیچے آیا ہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ لگایا جائے تو یہ اربوں میں نہیں بلکہ کھربوں روپے میں ہو گا۔ بہت سے لوگوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کر دیا ہے ۔ گزشتہ 6 سال کے دوران سیاسی استحکام کی وجہ سے بہت سے پاکستانیوں نے اپنا سرمایہ متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا ، ملائیشیا اور دیگر ملکوں سے پاکستان منتقل کر دیا تھا۔

صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی مذکورہ بالا ممالک کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کرنے لگے تھے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں پس پردہ اس خطے کے معاشی طور پر مضبوط ممالک کا بھی ماضی میں مبینہ طور پر ہاتھ رہا ہے۔ کراچی کے تاجر اور صنعت کار موجودہ سیاسی بحران اور عدم استحکام کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور اسے ملک کے خلاف ایک بیرونی سازش قرار دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان کو نہ صرف معاشی طور پر بہت نقصان ہوا ہے بلکہ سرمایہ واپس بیرون ملک جانے لگا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کی طرف سے اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر مظاہرین پر ہونے والے تشدد کے خلاف یوم سوگ منایا گیا ۔ اس موقع پر کراچی سمیت مختلف علاقوں میں کاروبار بار بند رہا ۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی مرکزی قیادت کی اپیل پر کراچی سمیت صوبے کے مختلف شہروں میں دونوں سیاسی جماعتوں کے مظاہرے اور دھرنے ہو رہے ہیں ۔ کراچی میں ان دھرنوں کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن سندھ کے عوام کی مظاہروں اور دھرنوں میں کوئی وسیع تر شرکت نہیں ہے۔

حکومت سندھ بھی مظاہرین کو روک نہیں رہی ہے بلکہ حکومت سندھ نے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی ہدایت پر مظاہرین کو سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے باوجود سندھ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت نہیں کر رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت بھی حکومت پر زور دے رہی ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت یہ نہیں چاہتی ہے کہ جمہوری نظام کو لپیٹ دیا جائے یا جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دیا جائے ۔ سندھ حکومت کی دو بڑی اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت اس سیاسی بحران کی وجہ سے ملک کو درپیش خطرات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہی ہے اور مذاکرات کی ناکامی پر اسے سخت افسوس ہوا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں فوری طور پر انتخابات کی حامی بھی نہیں ہیں اور وہ سندھ کے موجودہ سیٹ اپ کا خاتمہ بھی نہیں چاہتی ہیں۔

دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے افہام و تفہیم اور مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔ انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ اس لیے ان دونوں سیاسی جماعتوں نے آئندہ کی صورت حال کے حوالے سے اپنی حکمت عملی وضع کرنا شروع کر دی ہے ۔ سندھ ملک میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے اور اگر یہ تبدیلی غیر آئینی ہوئی تو سندھ میں زبردست سیاسی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کا سندھ کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ حالات ملک کے کسی بھی حصے میں خراب ہوں ، اس کے اثرات سندھ خصوصاً کراچی پر پڑتے ہیں۔

ایک تو سندھ کی معیشت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے اور دوسرا سندھ میں امن و امان کی صورت حال پہلے سے زیادہ خراب ہو جاتی ہے ۔ کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کی وجہ سے دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ میں بھی کمی آئی تھی لیکن حالیہ سیاسی بحران کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ بحران سے پہلے کراچی میں اوسطاً 5 افراد قتل ہوتے تھے لیکن بحران کے بعد پانچ سے زیادہ افراد کی روزانہ ٹارگٹ کلنگ ہونے لگی ہے اور کبھی کبھی یہ تعداد 10 سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔

اس وقت کراچی میں پولیس اہلکاروں اور مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے دہشت گردوں اور گینگسٹرز نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کر لیا ہے۔ کراچی ایک بار پھر آتش فشاں بنتا جا رہا ہے۔ اگر ملک میں سیاسی بحران ختم نہ ہوا یا بحران کے خاتمے کے لیے کوئی غیر آئینی اقدام کیا گیا تو نہ صرف کراچی میں امن وامان کی صورت زیادہ خراب ہو گی بلکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی امن وامان کے بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جائیں گے۔

تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج میں شریک خواتین ، بچے ، بوڑھے اور جوان خراج تحسین کے مستحق ہیں جنھوں نے آندھی ، بارش ، گرمی کے باوجود 18 دن مسلسل ایک جگہ پر بیٹھ کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ہر شخص کو انتخابات میں دھاندلی کی جانب متوجہ کرا دیا ہے۔ دوسری جانب مخدوم جاوید ہاشمی نے عمران خان پر الزامات لگائے ہیں۔ اس سے قبل مخدوم جاوید ہاشمی نے میاں نوازشریف پر بھی بے شمار الزامات عائد کرکے پارٹی چھوڑی اب انھوں نے عمران خان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ شروع کر رکھی ہے مستقبل میں مخدوم جاوید ہاشمی کا کسی بھی جماعت میں شامل ہونا مشکل ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔