نواز شریف اور فوج (حصہ اول)

طلعت حسین  پير 15 ستمبر 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

یہ جاننے کے لیے نواز شریف حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں آپ کو افلاطونی دانش مندی درکار نہیں ہے، نہ ہی یہ پہچان رکھنا کہ دھرنوں کے اردگرد گھومنے والے بڑے بڑے تنازعات کا تعلق ان خراب تعلقات سے ہے غیر معمولی سمجھ بوجھ کا ثبوت ہے۔ یہ قصہ اب بچے بچے کی زبان پر ہے۔ ہر دوسرے ڈرائنگ روم میں، ہر غیر رسمی سیاسی بات چیت یا دوستانہ گپ شپ میں تقریبا ہر کوئی اس موضوع پر توجہ مبذول کیے ہوئے نظر آتا ہے۔

تو بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ نواز شریف اپنے تیسرے دورِ حکومت میں پچھلے ادوار کی طرح سینگ پھنسا ئے ہوئے ہیں یا فوج ان کی حکومت کو احسن نظر سے نہیں دیکھ رہی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس گنجلک کو سیدھا کیسے کیا جائے تاکہ ہمارا نظام ریاست اندرونی شطرنج کی بازی جمانے کے بجائے ان مسائل پر یک سوئی کے ساتھ پالیسی سازی کر سکے جو ہر طرف سے منہ کھولے ہمیں نگلنے کے قریب ہیں۔

ان تعلقات کو اچھے انداز سے استوار کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرنے سے پہلے اس امر کو واضح کرنا ضروری ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان خلیج کو کم کرنے اور موجودہ تناؤ کی صورتحال میں نرمی لانے کی کوشش صرف اس وجہ سے ضروری نہیں ہے کہ پاکستان میں موجودہ بحران کو حل کیا جا سکے۔ آج کل کے معاملات وقتی مسئلہ ہیں۔ آج نہیں تو کل کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا۔ شاہراہ دستور سدا کنٹینرز کے بوجھ تلے دبی نہیں رہ سکتی۔ اور نہ ہی اہم سفارتی، سیاسی اور ریاستی حصے میں کھلے ہوئے بیت الخلاء اور دھوبی گھاٹ زیادہ دیر قائم رہ سکتے ہیں۔

فوج اور حکومت کے درمیان رسہ کشی کو مصافحہ میں بدلنا پاکستان کی سلامتی اور تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں گی۔ آج نواز شریف ہیں کل کوئی اور ہو گا۔ اس طرح فوج میں اہم عہدوں پر فائز ہر چند سال بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مگر اداروں کے مابین روایات پائیدار ہوتی ہیں ان کا اثر دہائیوں تک برقرار رہتا ہے۔ ان کے زیر سایہ بننے والے حالات اس تمام نظام کی جڑوں تک کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جس میں خرابی ہمیں تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اور ہمارا مستقبل سنوار بھی سکتی ہے۔

تو پھر نواز شریف حکومت کیا ایسا کر سکتی ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کی اس اہم ترین کل کو سیدھا کرنے میں حصہ ڈال سکے؟ سب سے پہلا قدم تو یہ ہے کہ فی الفور یہ تصور پھیلانا بند کردے کہ جیسے وہ ایک معصوم، قانون، آئین کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والی حکومت ہے جو ایک سرکش طاقت سے نبرد آزما ہے۔ اگردھرنے میں حکومت کو فوج کے کردار کے بارے میں تحفظات ہیں تو چند ماہ پہلے میڈیا کے ایک گروپ کے ذریعے جو کچھ کرنے کی کوشش کی گئی وہ بھی کسی ’’بہترین جمہوری رویے‘‘ کی عکاسی نہیں کرتا۔

میں نے ایک حالیہ نشست میں چوہدری نثار کو پرویز رشید صاحب کی موجودگی میں کہا کہ اگر ’’باہمی تعلقات کو اکھاڑے میں تبدیل کریں گے تو دائو پیچ تو لگیں گے۔ اس پر بلبلانے کا کیا جواز۔ ایک حرکت آپ نے کی۔ اس کا جواب آیا۔ دونوں برابر ہو گئے‘‘۔ اس بیان کے ذریعے میں حکومت کے اہم اور کلیدی اراکین کو یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ جمہوری اور آئینی معاملات طاقت کے سخت کھیل میں بطور ڈھال استعمال نہیں کیے جا سکتے۔

یقیناً حکومت منتخب عوامی نمایندے کی حیثیت سے تمام ریاستی اداروں پر فوقیت رکھتی ہے مگر اس فوقیت کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ اس اختیار کو بہترین قومی مقاصد کے لیے بروئے کار لایا جائے گا نہ کہ ذاتی مفاد میں پھینکے گئے تاش کے پتے کی طرح۔ حکومت اگر فوج کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتی رہے گی تو حالات میں تنائو برقرار رہے گا۔ یہ سرد جنگ ان بیانات کے باوجود جاری رہے گی جو محترم وزیر اعظم گاہے بگاہے فوج کی تعریف میں جاری کر دیتے ہیں۔ یہ خانہ پُری ہے۔

الفاظ کے اس زیاں سے حالات کی سنگینی کا احساس زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔ لہذا ایسے قدم کے طور پر حکومت ’سازش‘ کا لفظ استعمال کرنا اور کروانا بند کر دے تو اچھا ہو گا۔ اشاروں کنایوں میں اس قسم کے حوالے کھلے الزام سے بھی زیادہ معیوب محسوس ہوتے ہیں۔ ان سے اجتناب برتنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جو کچھ ابھی تک ہوا اس کو بھلائے بغیر اس میں سے صحیح سبق حاصل کر کے آگے بڑھنے کا سوچنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کے لیے دوسرا بڑا قدم فوج کے ان تمام تحفظات کو سنجیدگی سے لینے کی حقیقی کوشش کا آغاز ہونا چاہیے۔ فقط ملاقات کر لینا پالیسی نکتہ نظر جان لینا نہیں ہوتا۔ نہ ہی محض ’سن لینا‘ ’سمجھ لینا‘ گردانا جاتا ہے۔ اور صرف ’سمجھ لینا‘ بغض کے بغیر مشورے کی فوجی بنیاد پر کسی دبائو کے بغیر ’مان لینا‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ نواز شریف حکومت کے ذہن میں سویلین اختیار کا جو تصور موجود ہے وہ دنیا کے بہترین جمہوری ممالک میں بھی عملی طور پر نظر نہیں آتا۔

امریکا میں صدر بارک اوباما ایک نہیں آدھ درجن کے قریب خارجہ پالیسی کے ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر دیے گئے جن پر فوجی یا خفیہ اداروں نے مل کر ایک خاص سمت تجویز کی۔ ہندوستان میں پاکستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا چین کے ساتھ معاملات، دہشت گردی کے مسئلے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہو یا افغانستان میں پنجے گاڑنے ہوں، اکثریتی تجاویز فوج کی ہی مانی جاتی ہے۔ میں آپ کو اس طرح کی درجنوں مثالیں اور بھی دے سکتا ہوں جہاں پر منتخب حکومتیں فوج کی طرف سے دئے جانے والے مشوروں کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھتیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ مجبور بے کس ہے یا فوج اور سلامتی کے معاملات پر حاوی اسٹیبلشمنٹ سرکش اور سازشی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ملک کے مفادات کا تعین کرنا کسی ایک ادارے کی اجاداری نہیں سمجھی جا سکتی ہے۔ اور نہ ہی کوئی ایک ادارہ یا حکومت اتنی بڑی ذمے داری خود سے اٹھانے کی صلاحیت اور طاقت رکھتی ہے۔ لہٰذا ہندوستان کے ساتھ تعلقات ہوں یا چین کے ساتھ معاہدے افغانستان میں حالات پر ملکی ردعمل ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ کا مستقبل؟ فوج اور خفیہ اداروں کو نظرانداز کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

فیصلہ سازی حکومت کا اختیار ہے مگر فیصلہ سازی کے عمل کو ذاتی معاملات پر رائے بنانے کے طریقے کی مثال بنانا فضول اور بیکار انداز ہے۔ پاکستان اپنے معروضی اور مخصوص جغرافیائی حالات کے پیش نظر اس نقطے سے بہت دور ہیں جب وفاقی کابینہ دہائیوں سے بنی ہوئی پالیسی کے زاویوں کو یکسر تبدیل کر کے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا پائے گی۔ ویسے بھی تاریخ ایسے ہاتھوں سے تو تبدیل بھی نہیں ہو سکتی جو اسلام آباد میں پولیس کی کمانڈ کو صحیح طریقے سے چلا پائیں۔ نواز شریف حکومت کو تمام اہم قومی اور خارجہ پالیسی کے معاملات جن کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے پر فوج کی باقاعدہ اور شفاف انداز سے اِن پُٹ لینے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ نظام نہیں چل سکے گا ۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔