داعش کی پاکستان میں پیش قدمی !

قادر خان  بدھ 17 ستمبر 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

ایران کی سپریم سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ امریکا دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف کارروائی کے بہانے قوموں کی خود مختاری کو پامال کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ علی شامخانی کا کہنا ہے کہ امریکا شام اور عراق میں اپنی پالیسیاں مسلط کرنا چاہتا ہے اور شامی حکومت کے خلاف باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔

ایران کیجانب سے پہلی بار ایسا بیان اُس وقت سامنے آیا جب امریکا کی سربراہی میں دولت اسلامیہ کے خلاف بنائے جانے والے عالمی اتحاد میں ایران کی اس پیش کش کو مسترد کر دیا گیا جس میں اس نے اپنے خلاف عالمی پابندیوں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا، ویسے بھی دولت اسلامیہ کے خلاف ایران، عراقی حکومت کے ساتھ ملکر سخت مزاحمت کر رہا ہے اور فرقہ وارانہ اس جنگ میں دولت اسلامیہ کی جانب سے ہر متنازعہ عمل کے باوجود، یہ منصوبہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایران، دولت اسلامیہ کا بہانہ بنا کر عراق پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی اور ماضی میں ایران، عراق جنگ کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔

اسی کے ساتھ مخصوص مسلک کے ساتھ سعودیہ کے خلاف مشترکہ گروپ تشکیل دینا چاہتا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبدالحیان نے سرکاری ٹی وی کو بیان دیا ہے کہ ایران دہشتگردی کے خلاف ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں شرکت کا خواہش مند نہیں ہے، ان کے مطابق تہران خطے اور دنیا میں دہشتگردی سے لڑنے کی حقیقی جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ مصر جیسی مملکت دولت اسلامیہ کے خلاف عسکری کارروائیوں میں عملی طور پر کوئی کردار نہیں کرنا چاہتی لیکن امریکا، مصر کی جامعہ الازہر کو مذہبی محاذ پر دولت اسلامیہ کا مقابلہ کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

دولت اسلامیہ نے عراق میں سخت گیر پالیسیوں کے تحت، غیر مسلموں سے جزیہ وصولی یا نقل مکانی کے احکامات اور مصری خواتین کے ختنہ پر پابندی سمیت، دولت اسلامیہ کے سپاہیوں کی شادی کے لیے گھر گھر، غیر شادی شدہ لڑکیوں کی فہرست مرتب کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات کی ترغیب (احکامات) دیے گئے کہ وہ دولت اسلامیہ کے مجاہدین کے ساتھ نکاح کریں، اسی کے ساتھ دولت اسلامیہ کیجانب سے مخالف فرقے کی مساجد اور انبیا و اہل بیت کے مزارعات کو منہدم کرنے کے واقعات سمیت امریکی صحافیوں کی گردن زنی کی ویڈیو جاری ہونے کے بعد پوری دنیا میں ایک پیغام دیا ہے کہ دولت اسلامیہ اپنے منصوبے کے مطابق، شام اور عراق کے بعد محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی سرگرمیاں بتدریج بڑھتی چلی جائیں گی۔

چونکہ دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں خود مسلم امہ کے لیے حیران کن ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر اس قدر متشدد رویہ کیوں اپنائے ہوئے ہے القاعدہ کی جانب سے بھارت اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے نام پر بھارتی شاخ کے قیام نے ہندوستانی حکومت میں سراسیمگی پیدا کر دی ہے۔ انڈین میڈیا کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی کہ دو زیر تعلیم انجینئر طلبا کو کلکتہ سے گرفتار کیا گیا جو بنگلہ دیش میں دولت اسلامیہ کی خلافت کے حامی تھے تو دوسری جانب بھارت اور کشمیر کی عسکریت پسند مسلم تنظیموں کے علاوہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کو بھارتی ہندو انتہا پسندی سے نجات یا سبق دلانے کے لیے القاعدہ کے اعلان میں بڑی کشش پائی جاتی ہے۔

ابھی اس حوالے سے چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ دولت اسلامیہ کیجانب سے افغانستان اور پاکستان میں بھی کاروائیوں کے لیے قدم رکھ دیا گیا ہے اور دولت اسلامیہ کی جانب سے تشہیری مہم شروع کر دی گئی ہے جس میں پاکستان میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کی بستیوں، میں دولت اسلامیہ کی جانب سے ایک کتابچہ تقسیم کیا گیا ہے کہ وہ ’اسلامی خلافت‘ کے قیام کے لیے حمایت کریں۔ دولت اسلامیہ کے مطابق وہ خراسان میں خلافت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرینگے جس میں پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا ئی ممالک شامل ہونگے، پشتو اور دری زبان میں چھاپے گئے اس کتابچے میں افغان باشندوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔

اہم پہلو یہ ہے کہ بیشتر افغان باشندے جہاں ملا عمر کی قائم کردہ عسکری جماعت طالبان کو سپورٹ کرتے ہیں وہاں دولت اسلامیہ کی جانب سے عراق میں مسلسل کامیابیوں کے بعد ان میں دولت اسلامیہ کے لیے حمایت کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے، چونکہ پاکستان میں طالبان مختلف گروہ بندیوں کا شکار ہو کر مسلسل دھڑوں میں تقسیم ہو رہے ہیں اس لیے طالبان کی جانب سے کارروائیاں بھی ماند پڑ گئیں ہیں جس کی اہم مثال عصمت اللہ معاویہ پنجاب طالبان کی جانب سے پاکستان میں عسکری جنگ ختم کرنے اور افغانستان تک محدود رہنے کا خوش آیند اعلان ہے۔

تاہم اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اور شمالی وزیرستان پاک فوج کی کامیاب کارروائیوں اور پیش رفت کے بعد طالبان اتحادیوں نے ’جماعت الاحرار‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم بنا لی ہے، یہ تنظیم امیر ملا محمد عمر کو اب بھی اپنا امیر تسلیم کرتی ہے لیکن دولت اسلامیہ کی کوششوں کو بھی سراہتی ہے جس لگتا ہے کہ اگر دولت اسلامیہ کی سرگرمیاں پاکستان میں بڑھنے لگیں تو انھیں کامیابیاں مل سکتی ہیں اور قبائلی عوام کی محرومیوں کے جواز پر القاعدہ، طالبان سے بڑھ کر دولت اسلامیہ کو بھی قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران کی جانب سے دولت اسلامیہ کے خلاف سخت گیر فرقہ ورانہ رویہ بھی متنازعہ بن رہا ہے۔

’ دعوت جہاد‘ نامی پشتو اور دری زبان میں لکھے بارہ صفحات پر مبنی اس کتابچے میں کلاشنکوف پر لگے کالے رنگ کے پرچم پر کلمہ اور مہر رسول ﷺ کے ساتھ نمایاں انداز میں فتح لکھا ہوا ہے جب کہ کاروں پر اسٹیکر بھی دیکھے جا رہے ہیں، ذرایع یہ بتا تے ہیں کہ یہ مواد افغانستان کے علاقے کنٹر سے آئے ہیں۔ فی الحال یہ کتابچے پشاور، نوشہرہ اور دیگر علاقوں میں افغان مہاجرین کی بستیوں میں دولت اسلامیہ کیجانب سے نامعلوم افراد نے تقسیم کیے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بار بار آپریشن کے باوجود کچھ وقفے کے بعد کوئی نہ کوئی عالمی عسکری شدت تنظیم قدم جمانے میں اس لیے کامیاب ہو جاتی کیونکہ ان علاقوں کو ملک کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت پس ماندہ رکھا گیا ہے، انگریزوں کا دیا ہوا کالا قانون ایف سی آر کی وجہ سے بنیادی حقوق عام قبائلی کے لیے ممنوع ہیں، پولیٹیکل ایجنٹ، علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے اور یہاں سیاسی سرگرمیوں کی دیگر ملک کے حصوں کی طرح اجازت نہیں ہے خواتین کا کردار صرف پختون روایات اور اسلامی نقطہ نظر سے صرف گھروں تک محدود ہے، تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق مہیا نہیں کیے جاتے، روزگار سمیت معاشی مسائل ان علاقوں کا مقدر بن چکا ہے۔

وفاق کے ماتحت ہونے کے سبب صوبائی حکومت کی عمل داری نہیں ہے، گورنمنٹ کی رٹ کے بجائے قبائلی روایات کے مطابق ہی یہاں تمام فیصلے کیے جاتے ہیں اس لیے حکومتی انتظام و انصرام نہ ہونے کے سبب یہ قبائلی علاقے عالمی عسکریت پسند تنظیموں کے لیے ایک جنت کا درجہ رکھتی ہے۔ پھر افغانستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بغض کے سبب ان عناصر کی سر پرستی اور ملک دشمن ممالک کی جانب سے پاکستان کی بقا اور سلامتی کے خلاف سازشیں، دولت اسلامیہ جیسی عالمی تنظیم کو جلد ہی پاکستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

گو کہ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے دولت اسلامیہ کی پاکستان میں کسی سرگرمی سے قطعی لاعلمی اور تردید کی گئی ہے لیکن وزارت خارجہ کی’لاعلمی‘ ماضی کی طرح صرف رسمی بیانات کی حد تک محدود ہے، اگر پاکستان افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد پاکستان کو ایک نئی جنگ سے بچانا چاہتی ہے تو اسے ابھی سے اس اہم معاملے پر توجہ دینی ہو گی، افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی کو ممکن بنانا ہو گا، غیر ملکیوں کی سرگرمیوں کو قانون کی گرفت میں لا کر رجسڑڈ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے۔

ورنہ حکومت ایک نئی نہ ختم ہونے والی جنگ کے لیے تیار ہو جائے کیونکہ قبائلی علاقوں میں مسلسل آپریشن کے بعد انھیں حکومت اور سیاسی جماعتوں نے جس طرح نظر انداز کیا ہے اس سے خدشہ ہے کہ نوجوانوں کے رجحانات اس تنظیم کی جانب ہو سکتے ہیں کیونکہ احساس محرومی کے شکار کسی بھی فرد یا قوم سے ردعمل نہ صرف فطری ہوتا ہے بلکہ اس میں بدلے اور ناراضگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ حکومت کو اس کے مکمل خاتمے کے لیے اور ایسی تنظیموں کا راستہ روکنے کے لیے ابھی سے اقدامات کرنا ہونگے۔ پاک فوج سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہے لیکن سیاسی انداز میں بے چین اور احساس محرومی کے شکار عوام کے ساتھ کب تک اکیلے نبرد آزما رہے گی۔

فوج اپنے حصے سے بڑھ کر کام کر رہی ہے جب کہ سیاسی جماعتوں، صوبائی اور وفاقی حکومتیں محاذ آرائیوں سے بیزار ہونے ہونے والی عوام کی زیادتیوں کا ازالہ فوری نہیں کیا گیا تو مستقبل میں دولت اسلامیہ کا وجود پاکستان میں طالبان اور القاعدہ سے انتہائی زیادہ خطرناک ہو گا۔ عراق و شام کے حالات سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کیونکہ دولت اسلامیہ کے ساتھ صرف ہمدردی افغانستان کے عوام کو ہی نہیں، بلکہ پاکستان میں بھی کئی تنظیمیں اور گروہ ہیں، جو دولت اسلامیہ کی جانب سے شام و عراق میں کی جانے والی کارروائیوں کو درست سمجھتے ہیں اور پاکستان میں داعش کو قدم جمانے میں مشکل نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔