ایک انوکھا نقاد…وارث علوی

امجد اسلام امجد  جمعرات 18 ستمبر 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ادبی برادری سے رخصت ہونے والے ہر قابل ذکر قلم کار کو ایک تعزیتی کالم کی شکل میں  لفظوں کے کچھ پھول ضرور پیش کروں کہ یہ اس کا حق اور میرا فرض ہے لیکن کبھی کبھار کسی وجہ سے اس میں کچھ چوک ہو جاتی ہے ایسی ہی ایک چوک کا احساس مجھے برادرم زبیر رضوی کی ادارت میں شایع ہونے والے منفرد ادبی جریدے ’’ذہن جدید‘‘کے تازہ شمارے کے ٹائٹل کو دیکھ کر ہوا جس پر دو نقادوں وارث علوی اور محمد علی صدیقی کی تصاویر شایع کی گئی ہیں، محمد علی بھائی پر تو میں نے بروقت کالم لکھ دیا تھا مگر وارث علوی کا قرض رہ گیا جس کی اصل وجہ اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہی۔

وارث علوی مرحوم سے بالمشافہ تو مجھے صرف ایک بار ملنے کا موقع ملا (یہ ملاقات چند برس قبل انڈیا سینٹر دہلی میں ہوئی تھی جہاں ہم دونوں کسی کانفرنس میں مہمان تھے) لیکن ان کی تحریروں سے میری واقفیت بہت پرانی ہے ان کے بہت سے بے مثال انتہائی تیز اور تخلیقی جملے ان کی اور ان سے متعلق تحریروں کے حوالے سے میری نظر سے گزر چکے تھے جن کی بنیاد پر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دور حاضر کی تنقید میں وارث علوی کے مقابلے کے جملہ باز‘ اگر مشفق خواجہ ہوں تو ہوں دوسرا کوئی اس کا دعویدار نہیں ہو سکتا جس قدر CASUAL اور سرسری انداز میں وارث علوی نے تنقیدی گہرائی سے بھرپور آراء دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

’’ذہن جدید‘‘ کے متذکرہ بالا پرچے میں زبیر رضوی نے وارث علوی کے بارے میں اپنی کچھ یادیں اور یادداشتیں قلم بند کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ذیلی عنوانات پر ان کے مختصر مضامین یا ان کے کچھ حصے بھی مشتے از خروارے کے طور پر شامل کر دیے ہیں جن کے مطالعے سے وارث علوی کی اگر تصویر نہیں تو خاکہ ضرور بن جاتا ہے۔

زبیر رضوی خود ایک اعلیٰ پائے کے شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ نقاد اور براڈ کاسٹر ہیں لیکن اس تحریر میں ایک اور رنگ کا اضافہ بھی ہو گیا ہے اور وہ ہے دوستی کا رنگ۔ زبیر اور وارث علوی نے نظریاتی اور جذباتی دونوں حوالوں سے کم و بیش چالیس برس ایک ساتھ گزارے ہیں جن کی وجہ سے اس تعزیتی مضمون میں وارث علوی کی شخصیت ذاتی زندگی‘ رجحانات‘ اعتقادات‘ مصروفیات وغیرہ وغیرہ وغیرہ کے کچھ ایسے پہلو بھی درمیان میں آگئے ہیں جو ہمیں تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی دکھاتے ہیں اور وہ یہ کہ ادبی معاملات میں ایسے راست گو‘ جملے باز اور جارحانہ انداز کا حامل شخص اپنی ذاتی زندگی میں کس قدر نرم‘ معتدل مزاج اور دوست پرور تھا۔

زبیر لکھتے ہیں،’’میرے دوستوں میں وارث علوی ایسا دوست ہے جس سے ملتے ہوئے گرم جوشی کا گراف کبھی نیچے نہیں آیا‘ ملنے پر وہی بے محابا بے تکلفی‘ والہانہ ہم آغوشی‘ دلی ہو یا احمد آباد یا پھر کوئی اور شہر ہم دونوں اس سارے بیتے ہوئے کا ورق ورق الٹتے ہیں جو کسی پچھلی ملاقات کے بعد ہمارے روز و شب کا حصہ بن گیا ہوتا ہے… عجیب ہے یہ شخص کہ کسی زعم اور ان کے بغیر اپنے علم کو عرفان کی دیوالی کی آتش بازی کی طرح بے دریغ دیر تک یوں چھوڑتا رہتا ہے کہ سارا ماحول جگمگا اٹھتا ہے… یہ وارث علوی ہی تھے جنہوں نے ادبی تنقید کو آتش بازی کے ہنر اور شوق سکھائے… اپنی شخصیت کی طرح اپنی تنقید کو بھی وارث علوی نے ایک ایسا بے محابا اور والہانہ آہنگ دیا جو کسی صوفی کی طرح آپ کو دیر تک رقص پا پر آمادہ رکھتا ہے…

جو کتابیں اس نے پڑھیں‘ جس فکشن اور شاعری نے اس کی آنکھوں کی نیندیں اڑا دیں ان کے حوالے‘ اس کے مضامین میں قاری کو مرعوب کرنے کے بجائے اس کو اپنے مطالعے کے شب و روز میں شریک حال بناتے ہیں… وارث کے ملنے میں بڑا کھلا پن ہے اس کھلے پن میں وضع داریاں بھی ہیں اور دلداریاں بھی، آپ کے ساتھ بات چیت میں وارث کبھی اپنے کسی زخم پر آپ کو انگلی نہیں رکھنے دیتا وہ مینا کماری کی طرح اپنی انگلی کی ناہمواری کو دیکھنے والے کی آنکھ کی گرفت سے بچا لیتا ہے‘‘۔

وارث علوی احمد آباد گجرات میں پیدا ہوئے اور ساری عمر اسی کے جوار میں بسر کی، مشہور شاعر محمد علوی ان کے پھوپھی زاد بھائی ہیں جن کے بڑے بھائی ان کی خاندانی گدی کو سنبھالے ہوئے ہیں وارث نے ہمارے بیشتر اچھے اردو نقادوں کی طرح عمر بھر انگریزی پڑھائی ان کا انگریزی کلاسیکی اور جدید ادب کا مطالعہ بھی بہت گہرا اور بھرپور تھا مگر ان کی تنقید ہمیں اس کے حوالے سے گراں بار دکھائی نہیں دیتی اب آئیے ان کی تنقید کے چند نمونے دیکھتے ہیں اپنی رائے کے اظہار میں وہ ذاتی تعلقات کو کس طرح نظر انداز کر کے اپنی بات کہتے تھے اس کا ایک نمونہ اپنے دوست شمیم حنفی کی کتاب ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ پر ان کے تبصرے میں دیکھی جا سکتی ہے۔

’’میں اردو زبان کی ان تنقیدوں کو ہاتھ لگانے سے احتراز کرتا ہوں جن میں نقاد دوسرے علوم کے سیاروں کی سیر کو روانہ ہوتا ہے میرا یہ خوف اکثر صحیح ثابت ہوتا ہے کہ ایسی سیر و سیاحت کے لیے جس خلائی لباس کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس کے پاس نہیں ہے اور لکھنئو کی کامدانی میں وہ ٹھٹھر کر رہ جائے گا۔ شمیم حنفی نے میرے اس خوف کو بے بنیاد ثابت نہیں کیا‘‘

زبیر رضوی کہتے ہیں ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘ پر وارث کے اس طویل کڑوے اور کسیلے تبصرے کے باوجود وارث اور شمیم کے تعلقات ہیں دراڑ نہیں پڑی کہ شمیم Retort میں یقین نہیں رکھتے، وارث پھر شمیم کے گھر ہی اپنے بے تکلف انداز میں ٹھہرنے لگے تھے اور جب 1990 میں ان کی کتاب ’’پیشہ سپاہ گری بھلا‘‘ شایع ہوئی تو وہ شمیم حنفی کے نام تھی‘‘

وارث کی دانت کاٹی روٹی والی دوستی باقر مہدی سے بھی رہی… باقر کی شاعری پر وارث کی رائے پڑھیے ’’میں یہ نہیں کہتا کہ باقر مہدی کھرے باغی نہیں ہیں… میں یہ بھی نہیں کہتا کہ چے گویرا کے افکار کو اپنانے والا صحیح باغی نہیں ہو سکتا مجھے ان سے جھگڑا اس بات پر نہیں ہے کہ وہ باغی کیوں ہیں اور چے گویرا کا ذکر کیوں کرتے ہیں میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انھوں نے اپنی بغاوت میں شاعری سے بھرپور کام نہیں لیا وہ صرف بغاوت کے نعرے لگاتے ہیں… انھوں نے اپنی بغاوت سے اتنا ہی کام نہیں لیا جتنا ترقی پسندوں نے اپنی انقلاب پسندی سے لیا تھا اس لیے باغی کا نقاب ان کی شاعری کے چہرے پر نہیں جچتا‘‘

پاکستان میں ادب اور بالخصوص تنقید کا جو حال اور معیار ہے اس کے پیش نظر تنقیدی کتابوں کا چھپنا اور پھر ادبی محافل میں ان کا ذکر اذکار اب ایک خواب اور تمنا کی شکل اختیار کر گئے یہی وجہ ہے کہ بھارت میں لکھی اور چھپنے والی تنقیدی کتابیں بھی یہاں نہ صرف کم کم پہنچتی ہیں بلکہ ان پر گفتگو کی توفیق ہماری یونیورسٹیوں تک کو نہیں ہوتی کہ وہاں زندہ ادب اور زندہ ادیب دونوں ہی کے لیے کوئی جگہ نہیں کالم کی گنجائش میں تنگی کے باعث اب میں صرف بغیر کسی تبصرے کے ان کے ایک مضمون‘ قافیہ تنگ اور زمیں سنگلاخ‘‘ کے کچھ ٹکڑے درج کرتا ہوں کہ اس کی گہرائی اور مخصوص انداز نگارش سے میرے بیشتر قارئین اس منفرد اور بے مثال نقاد سے مکمل نہ سہی کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور حاصل کر لیں گے۔

’’فن کار کی مصیبت یہ ہے کہ جب وہ تخلیق کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اسے پتا تک نہیں ہوتا کہ وہ تجربات کے کون سے پانیوں سے گزرے گا‘ جذبات و احساسات کی کیسی انوکھی دنیائوں کی سیر کرے گا نہ جانے کیسے کیسے عجیب و غریب لوگوں سے اس کی ملاقات ہو گی اور ہر مختلف صورت حال میں نہ جانے اس کا جذباتی ردعمل کیا ہو گا‘ کنگ لیئر اور میکبتھ‘ اینا کارے نینا اور مادام بواری… راسکو نلبسوکف اور ولی لومین… بابو گوپی ناتھ اور سوگندھی جیسے کرداروں سے مل کر فن کار کو اپنا طرز عمل ان کی طرف اپنا پورا رویہ اس مخصوص صورت حال کے تقاضوں کے پیش نظر خود ہی متعین کرنا ہو گا ایسی صورت حال میں نقادوں کی تمام  نصیحتیں ان سکوں کی مانند جو پردیس میں نہیں چلتے اپنی تمام قدر و قیمت کھو دیتی ہیں۔

ان نقادوں کے نزدیک ادیب گویا انسانی کنبے کا وہ بڑا بیٹا ہے جس کے کندھوں پر پوری انسانیت کا بار ہے اور وہ انسانوں کے تمام اچھے برے اعمال کا ذمے دار ہے‘ پہلی جنگ عظیم کی ذمے داری ادیب کے سر… دوسری جنگ عظیم کی ذمے داری ادیب کے سر‘فاشزم کا ذمے دار ادیب‘ ملک کی غلامی کا ذمے دار ادیب‘ معاشرتی بد حالی اور زبوں حالی کا ذمے دار ادیب‘ غدر ہوا تو فن کار کیا کر رہا تھا؟ آزادی کی جدوجہد میں فن کار کہاں تھا؟

فن کار سماج کے سامنے جواب دہ ہے‘ فن کار کو انسانیت کی عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنا ہوگی اور بے چارہ فن کار سوچتا ہے کہ زمین سخت اور قافیہ تنگ۔ ایک شعر مشکل سے ہو رہا ہے اور یہ لوگ ہیں کہ اسے انسانیت کی عدالت میں کھڑا کر رہے ہیں آخر انسانی کنبے کے دوسرے بھی تو لاڈلے بیٹے ہیں ان سے کوئی باز پرس نہیں کرتا! ایک برخوردار ہیں کہ دن رات بارود سے کھیلتے رہتے ہیں ایک سے ایک ایسے پٹاخے ایجاد کیے ہیں کہ کل کو اٹھ کر پوری دنیا ایک دھوئیں کا مرغولہ بن گئی تو کوئی ان سے پوچھنے والا بھی نہ ہو گا…

دوسرے برخوردار کا مشغلہ سیاسی ہنگامے کرنا ہے‘ شہرت‘ طاقت اور اقتدار کے حصول کے لیے وہ جو چاہتے ہیں سو کرتے ہیں… انسان کی اپنی زندگی جیسی تو کوئی چیزہی نہیں رہی‘ ہر آدمی کی ذات کو انھوں نے اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ پیدائش سے لے کر موت تک ہر چیز ان کے زیر تسلط ہے… اور رہا یہ سوال کہ بچہ مدرسے میں ’’گلستان‘‘ پڑھے گا یا مائوزے تنگ کی کتابوں کو… زبان مادری بولے گا یا وہ جو یہ برخوردار طے کریں… ڈرامے شیکسپیئر کے دیکھے گا یا جو یہ برخوردار اپنے ہر منشیوں سے لکھوائیں… شعر غالب کا پڑھے گا یا دن رات قومی ترانے ہی گاتا رہے گا؟

تو یہ سوال اس لیے بے معنی ہے کہ اس کا تعلق تہذیب سے ہے اور ہمارے ان برخوردار کی نظر میں تہذیب‘ ادب اور آرٹ صرف پیٹ بھروں کی عیاشیاں ہیں‘ اس قسم کی عیاشیوں کے ذریعے آدمی اپنی ذات کا انکشاف کرتا ہے اور سیاسی آدمی کی کوشش ہی یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنی ذات اور اپنے جذباتی‘ روحانی اور اخلاقی مسائل کو بھی سیاسی مسائل بنا دے تاکہ پورا انسانی معاشرہ ایک سیاسی اور اقتصادی اکائی بن جائے تاکہ وہ تمام اقدار جو ایک آدمی کو سماجی آدمی بناتی ہیں مثلاً عشق و محبت‘ دوستی جہد معاش‘ سرگرمی اور فرصت تفریح اور کام‘ مذہبی اور موسمی رسم و رواج اور تہوار۔

تو یہ ہے وہ شخص وارث علوی اور یہ ہے اس کا نمونہ تحریر‘ جس کے حرف حرف میں سچائی‘ مطالعہ اور جرات ایک ساتھ بول رہے ہیں۔ بلاشبہ ایسے ہی لوگوں کے اٹھ جانے سے انسانی معاشرے غریب تر اور بے توقیر ہو جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔