بڑے پن کا ثبوت دیجیے

ڈاکٹر منصور نورانی  جمعرات 18 ستمبر 2014
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

وفاقی دارالحکومت میں ایک مہینے سے جاری دو جماعتوں کے احتجاجی دھرنوں کا باعزت خاتمہ کیسے ممکن ہو، یہ سوال فریقین کے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ایک دردِ سر بنا ہوا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے لیے تو یہ اُن کی اپنی سیاسی زندگی کی حیات و موت کا سوال بن چکا ہے۔ اگر وہ میاں صاحب کے استعفے کے بغیر راضی ہو جاتے ہیں تو پھر اُن کی آیندہ کی سیاست کو بڑے دھچکے کا خطرہ ہے کیونکہ لاہور سے چلتے وقت وہ دونوں یہ عہد کر کے چلے تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ موجودہ حکومت کا خاتمہ کر کے ہی واپس لوٹیں گے۔

طاہر القادری نے واپسی خود اُن کے لیے نہیں تو کم از کم اُن کی اگلی تمام سیاست کے لیے زہرِ قاتل ضرور بن سکتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے باقی تمام سیاسی جماعتوں کا جو خلافِ توقع اُ ن کے اِس مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے دھرنوں کے ساتھ ہم خیال اور ہم نوا بن کر شامل نہ ہوئیں بلکہ متحد و یک زباں ہو کر اُن کے مقابلے پر آ کھڑی ہوئیں۔ وطنِ عزیز کی ساری پارلیمنٹ نے اِن دھرنوں کے خلاف ایک ایسا مضبوط محاذ ترتیب دے لیا ہے جس کی پاکستان میں اِس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست میں اِن نئے نئے واردان کے علاوہ تمام پرانے سیاستدانوں نے کم ازکم اپنے ماضی سے یہ ایک اچھا سبق سیکھا ہے کہ آپس کے اختلافات خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں لیکن جمہوریت پر وہ کوئی ضرب آنے نہیں دیں گے۔

دوسری جانب دھرنوں میں شریک افراد کی عددی قوت بھی ابتدا ہی سے اُتنی نہ رہی جس کی کہ توقع کی جا رہی تھی۔ بلکہ یہ کہنا غلط اور بے جا نہ ہو گا کہ یہ تعداد طاہر القادری کے پچھلے سال کے دھرنے سے بھی کئی درجہ کم رہی۔ پھر موسم کی سختی اور دھرنے کی غیر معمولی طوالت نے لوگوں کو نااُمید اور مایوس بھی کر دیا ہے۔ یہ اگر صرف چند دنوں کی بات ہوتی تو شاید حاضرین کی تعداد کچھ متاثر کن حد تک بڑی ہو سکتی تھی۔

مزید برآں دھرنے کے قائدین کی جانب سے اُٹھائے گئے سوال اور مطالبے کوئی اِس قدر پُر اثر اور دل نشیں نہیں تھے کہ جن کو سن کر سارا پاکستان سڑکوں پر نکل آتا۔ عوام الناس کے عام مسائل جن سے ہمارے لوگوں کو روزانہ کا واسطہ رہتا ہے وہ تو اِن دھرنوں کے مطالبوں میں شامل ہی نہیں کیے گئے۔ صرف ایسی باتوں کو لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی جن کی حقیقت اور صداقت کا تعین ابھی ہونا باقی ہے۔

الیکشنز میں مبینہ دھاندلی کا مسئلہ تو ملک میں ہونے والے ہر الیکشن میں ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والے نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا ہو۔ جو ایک الیکشن صاف اور شفاف ہوئے تھے تو اُس کے نتائج کو تسلیم کر کے اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کر نے کی بجائے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے جن سے لاکھوں انسانوں کی جانوں کا زیاں بھی ہوا اور ہمارا وطنِ عزیز دو لخت بھی کر دیا گیا۔ ایک ایسا پاکستان جسے ہمارے رہبر و رہنما قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا محض 25 سالوں میں توڑ کر ایک نیا پاکستان بنا دیا گیا۔

نئے پاکستان کی اصطلاح کے بار بار استعمال سے ہمیں اِس لیے بھی خوف آتا ہے کہ کہیں پھر وہی تاریخ تو دہرائی نہیں جائے گی۔ ویسے بھی چار اکائیوں پر مبنی اِس ملک کو اندرونی اور بیرونی بے شمار خطرات لاحق ہیں۔ فرقہ واریت، لسانیت اور علاقائی تعصب کے علاوہ علیحدگی پسند رجحانات کی آبیاری کے لیے یہ زمین شاید بہت زرخیز ہے کہ یہاں ہر روز ایک نیا فتنہ سر اُٹھانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

ایسے میں سارا نظام اُتھل پتھل کر کے نئے پاکستان یا انقلاب کی نوید سنانا کس قدر صائب اور مستحسن اقدام ہے اِس کا تعین تو آنے والا وقت ہی کر سکتا ہے لیکن فی الحال ہمارا پاکستان اور اِس کے کروڑوں افراد سخت ذہنی کوفت اور دبائو کا شکار ہیں۔ ہمارا ملک یقینا انحطاط پذیری اور زبوں حالی کی سمت چل پڑا ہے۔ خدا خدا کر کے جمہوری عمل کو کچھ دوام ملنے لگا تھا کہ اچانک پھر اُسے خطروں سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ ملک کی معیشت میں کچھ بہتری کے آثار نمودار ہونے لگے تھے کہ پھر ترقی و خوشحالی کا پہیہ پیچھے کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔

اِن دھرنوں کا باعزت خاتمہ جس سے کسی فریق کی ہتک، خفت اور سبکی بھی نہ ہو کس طرح ممکن ہے۔ اِس کے لیے ہمارے کچھ زیرک اور مدبر سیاستداں سر جوڑ کر بیٹھ چکے ہیں لیکن ہنوز اُنہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ وہ روزانہ کبھی ڈی چوک پر لگے کنٹینروں پر دستک دیتے ہیں تو کبھی حکمرانوں کے دربار میں حاضری دیتے ہیں۔ لیکن معاملہ وہیں کا وہیں ہے۔ سارے مطالبے مانے جا چکے ہیں سوائے ایک استعفے کے جس پر کسی طور سمجھوتہ ہو نہیں پا رہا۔ درمیان میں ضد اور انا کی ایک بڑی خلیج حائل ہے۔

گرچہ ثالثوں نے یہ ضمانت بھی دے رکھی ہے کہ اگر جوڈیشل کمیشن سابقہ الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دے تو وہ میاں صاحب کو استعفیٰ پر ضرور مجبور کر دیں گے، لیکن نہ عمران خان اور نہ جناب طاہرالقادری صاحب اِس بات پر آمادہ ہیں اور نہ ہی میاں صاحب قبل از وقت جانے کو تیار ہیں۔ مذاکرات کی میز روزانہ سجائی جاتی ہے۔ عہد و پیماں روز ہوا کرتے ہیں لیکن نتیجہ وہی یعنی ڈھاک کے تین پات۔ ایک طرف ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے پرستاروں کو جہاد میں شامل ہونے کی دعوتیں دیتے رہتے ہیں تو دوسری جانب عمران خان شرکاء کی تعداد بڑھانے کے طور طریقے تجویز کر تے رہتے ہیں۔

روزانہ یومِ انقلاب بھی منایا جاتا ہے اور آزادی مارچ کا جشن بھی۔ شاہراہِ دستور پر جاری دھرنوں میں ایک جانب مفلسی اور غربت کے علاوہ عقیدت مندوں کے غیر متزلزل اعتقاد کے مظاہرے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری سمت ماڈرن زمانے کے مراعات یافتہ افراد کا موسیقی کی مدھر دھنوں پر رقص و سرور۔ لوگوں کے دو بالکل مختلف گروہ ساتھ ساتھ بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔ جب پی ٹی وی پر حملہ ہوا تو عمران خان نے اپنا دامن بچاتے ہوئے اِس غیر مناسب حرکت کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ دوسرے فریق کے کھاتے میں ڈال دیا اور اِسی طرح جناب طاہرالقادری نے بھی اِس جرم کی صحت سے مکمل انکار کیا۔

اِن دھرنوں کو بہرحال ایک دن ختم ہونا ہی ہے۔ یہ سارا سال جاری نہیں رکھے جا سکتے۔ چاہے یہ جز وقتی بنیاد پر ہر روز ہی کیوں نہ منعقد کیے جاتے ہوں۔ اور یہ کوئی ہمہ گیر ملکی تحریک بھی نہیں ہے کہ جس میں سارا پاکستان اُٹھ کھڑا ہوا ہو۔ بہتر یہی ہے کہ درمیان میں صلح صفائی کروانے والوں کی بات مان لی جائے اور اُنہیں ایک ضامن کے طور پر قبول کر کے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ ہٹ ڈھرمی، ضد اور انا پرستی کو ترک کر کے سیاسی بلوغت اور تدبر کا مظاہرہ کیا جائے۔ ملکی حالات کسی لمبی محاذ آرائی اور افراتفری کی اجازت نہیں دیتے۔ جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ حاصل کر لیا اُسی پر اکتفا کر کے بڑے پن کا ثبوت دیا جائے۔ بصورتِ دیگر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔