احتجاج اور دھرنے، نئی سیاسی ساخت (پہلا حصہ)

شبانہ یوسف  جمعـء 19 ستمبر 2014
shaboroz@yahoo.co.uk

[email protected]

روشنی اور ہوا کی راہ روکنے والو کیا روشنی اور ہوا کا سفر رک سکا ہے کبھی؟  اس وقت پاکستان میں روشنی اور ہوا نے اپنے سفر کا آغازکر دیا ہے بہت دہائیوں سے سیاسی حبس اور بد دیانتی کے اندھیروں نے ہمیں گھیرے رکھا ہے مگر اندھیرے جتنے بھی گہرے ہوں ان کی ایک خصوصیت ہوتی ہے کہ یہ اپنے محصوروں کی آنکھوں کواندھیروں میں دیکھنے کا ہنر بخش دیتے ہیں، ہمارے عوام  میں سے اکثریت سیاسی اندھیروں سے بہت حد تک فیضیاب ہو کر دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے اور اپنی طاقت سے آشنائی حاصل کر چکے ہیں۔

سیاست اور سماج دونوں ہی درحقیقت طاقت کا کھیل ہیں جس کے ذریعے کسی بھی سماج کے مشترک وسائل پر قبضہ کیا جاتا ہے اور قابض گر وہ چاہے ریاست کی ساختوں میں ہی کیوں نہ ہو ان وسائل کی تقسیم اپنی مرضی سے اس طور کرتا ہے کہ جس کا ناگزیر نتیجہ اسی گروہ کا مستفید ہونا ہوتا ہے۔ قابض گروہ وسائل سے مستفید ہو کر اپنی طاقت کو مزید بڑھاتا ہے، جو درحقیقت معیشت ہی کی ساخت کا حصہ ہوتے ہیں، یعنی طاقت اور معیشت کی ساختوں کا رشتہ جدلیاتی ہے جو ایک دوسرے پر منفی اور مثبت دونوں طرح سے اثر انداز ہوتا ہے، جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ معیشت پر قابض ہوتا ہے اور جو معیشت پر قابض ہوتا ہے وہ اس کے ذریعے مزید طاقت کو خرید لیتا ہے۔

غرض یہ کہ طاقت اور معیشت کی ساختیں باہم بین الربطگی کی وجہ سے ایک دوسرے کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں، مگر ان سب کے باوجود ریاستی طاقت اور معیشت کی ساختیں پاکستان کی سیاسی ساخت میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں تاریخ کے اس موڑ پر  اس لیے ناکام اور ناکافی نظر آتی ہیں کہ طاقت جو کسی وقت میں صرف ریاست کے اداروں کی ساخت میں پنہاں ہوتی تھی، اب کئی نئی ساختوں میں خود بھی ڈھل چکی ہے اور اپنی سکونت کے لیے مختلف ساختوں کو اپنا مسکن بھی بنا چکی ہے، جس کی وجہ سے عوام اور حکمرانوں کے مابین تعلق اور بھی پیچیدہ ہو چکا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست کی بساط پر روایتی انداز میں آگے بڑھنے والے مہرے اور ان مہروں کو آگے بڑھانے والے روایتی سیاسی کھلاڑی اور ان کو دیکھنے والے روایتی تماشائیوں کی توقع کے برعکس چلی جانے والی نئی اور انوکھی چالوں نے سب کو حیرت زدہ کر رکھا ہے۔

کچھ لوگ عمران خان کی غیری سیاسی و غیر روایتی تقاریر سے پریشان ہیں تو کچھ ڈاکٹر طاہر القادری کے پختہ عزم سے نالاں ہیں۔ موجودہ عوامی احتجاج نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا، بلکہ عالمی سیاسی تاریخ کا طویل ترین عوامی احتجاج ہے، جسں نے بد عنوانوں کو ورطہ حیرت میں اس لیے ڈال رکھا ہے کہ ان کی توقعات کے برعکس اس احتجاج کے رہنما کسی بھی قسم کے لالچ میں آ کر عوامی مفادات کو سیاسی بدعنوانی کی مقتل گاہ میں قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

جو لوگ اس احتجاج کو غیر جمہوری یا غیر آئینی کہہ رہے ہیں ان کو عالمی سیاسی تاریخ یا اسی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے جن کے تحت احتجاج اور انحراف جمہوریت کا بنیادی اور اہم عنصر ہیں۔

انحراف اور احتجاج  جدید سیاسی عمل میں شرکت کی نئی ساخت ہے، نئی سیاست کی بدلتی اقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روایتی سیاست گورنمنٹ کے روایتی اداروں سے بہت حد تک باہر عمل پزیر ہو رہی ہے اور ریاست کا اپنا کردار اور کنٹرول کہاں تک ہے یہ قابلِ بحث ہے، کیونکہ اب بہت سے سیاسی تصور اور سیاسی دنیائیں سامنے آچکی ہیں جو پس ماندہ سیاسی سماجوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں، اگرچہ پہلے بھی اس وسیع دنیا میں یہ کہیں نہ کہیں موجود تو تھیں مگر ایک دوسرے کی ان سیاسی دنیائوں کو خبر نہ تھی یا یوں کہ لیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائبر اسپیس کی ساختوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک دوسرے سے ربط میں نہیں تھیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیرِ اثر ان مادی ثقافتوں اور سماجوں میںبہت سی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں جو اپنی تعریفَ بائیں بازو کی انٹیلی جنشیا سے خصوصاََ از سرِ نو چاہتی ہیں، کیونکہ اس سے پہلے مادی اور معاشی تحفظات کے حوالے سے ڈسکورس تشکیل دیا جاتا رہا ہے اور اس کی روشنی میں جدوجہد کو متعین کیا جاتا تھا، مگر بائیں بازو ہی کی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے لبرل ڈیموکریسی نے مغربی معاشروں میں نہ صرف لوگوں کے بنیادی ایشو، روٹی کپڑا اور مکان کو حل کر دیا ہے، بلکہ انٹیلی جینشیا کے ذریعے لوگوں کی سوچ کو بھی کنٹرول کرنے میں مصروفِ عمل ہے جس کے مقابل بائیں بازوکی انٹیلی جنشیا کو بھی نئی سماجی و سیاسی ساختوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔

مغرب میں لوگ بنیادی حقوق حاصل کرنے کے بعد اس سے آگے بہتر زندگی گزارنے کے لیے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ماضی کے پر تشدد روایتی احتجاج اور دھرنوں کی ساختیں تبدیل ہو کر نئی صورتوں میں ڈھل چکی ہیں اور لوگ اب نئے انداز سے اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں، جیسے کہ مختلف سماجی تنظیمیں، چیرٹی کے ادارے، خواتین کے گروہ، پیٹشن سائن کرنا، بہت ہی بنیادی سطح پر کسی سیاسی سرگرمی میں شرکت کرنا، کسی تنظیم یا گروہ کا احتجاج کرنا، کسی بین الاقوامی، قومی یا علاقائی سطح پر کسی اخبار کو خط لکھنا وغیرہ۔

یہ سب اپنے حقوق کے حصول کے لیے گورنمنٹ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے ووٹ کے علاوہ نئی سیاسی سرگرمیوں میں پر امن طریقے سے گورنمنٹ کو پریشرائز کر کے وسائل کی تقسیم اور پالیسی سازی کے عمل پر اثرانداز ہونے میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں مغربی معاشروں میں روایتی سیاسی سرگرمیوں کا واضح فقدان نظر آتا ہے یعنی لوگ اب الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے اتنی تعداد میں شرکت نہیں کرتے جتنا کہ ماضی میں کرتے تھے۔

اس سرگرمی کی تنزلی کا آغاز مغرب میں تقریباََ 1970ء سے ہو چکا تھا خصوصاََ یورپ کے اور امریکا کے ممالک میں، برطانیہ میں 2001ء کے الیکشن کا ٹرن آئوٹ سیاسی ماہرین کے لیے حیران کن تھا جس میں  59% ٹرن آئوٹ تھا جو 1997ء سے 12 فی صد کم تھا، اسی طرح سیاسی پارٹیوں کی ممبرشپ میں کمی ہو چکی ہے۔

برطانوی سیاسی سائنسدانوں کے لیے یہ تنزلی باعث حیرت بھی ہوئی اور کنفیوژن کا باعث بھی بنی تھی، کیونکہ سیاسی ماہرین نے ان سماجی عناصر کو اپنے تجزیات میں نظر انداز کیا تھا جو نئی ساختوں میں ڈھل کر سیاسی عمل پر اثرانداز ہو رہے تھے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک طرف تو اعلیٰ تعلیم نے لوگوں میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے نئی راہوں اور نئے طریقوں کو متعارف کرایا ہے، تو دوسری طرف لوگوں کا اعتماد اپنے گورنمنٹ کے اداروں اور روایتی پارٹی سسٹم پر نہیں رہا۔

یہی وجہ ہے کہ برطانوی تعلیمی پالیسیوں میں تبدیلی کے نتیجے میں اکثریت کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا دشوار تر کر دیا گیا ہے۔ بہرحال ’’دی ورلڈ ویلیو‘‘ سروے کے مطابق، جو امریکی یونیورسٹی کے تحت 1997ء میں ہوا اور اس میں دنیا کے 45 ممالک سے ڈیٹا اکٹھا کر کے تجزیہ پیش کیا گیا؛ لوگ الیکشن میں ووٹ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اس سروے کا مقصد امریکا میں تو لبرل ڈ یموکریسی کی ناکامی اور سیاست دانوں کے عوامی رضا کے خلاف  آزاد منڈی کے پھیلاؤ اور معاشی مفادات کے حصول کے پیشِ نظر کیے جانے والے فیصلوں پر پردہ ڈالنا تھا کہ لوگ بنیادی سہولتوں کی موجودگی میں سیاسی عمل اور ریاستی فیصلوں میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ ان کے بنیادی حقوق یعنی زندہ رہنے کے لیے درکار روٹی ، کپڑا اور مکان مل رہے ہیں۔

مگر مخالف نظریات کے حامل تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغربی عوام سیاسی عمل میںشریک نہیں ہوتے، بلکہ سیاست میں شمولیت کے عمل میں تیزی آئی ہے جو ووٹ دالنے سے ماورا نئی ساختوں کے ذریعے ہو رہی ہے، جو پیٹیشن، عوامی مظاہروں اور سیاسی ہرتالوں کی ساخت میں ڈھل چکی ہے، جن کے ذریعے لوگ لبرل ڈیموکریسی کی سرمایہ دارانہ چالوں کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور بہتر زندگی کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔