میں نہ مانوں…

عالیہ ضیاء  جمعـء 19 ستمبر 2014

بہت دکھ ہوتا ہے بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی، بحیثیت انسان یقین جانیں بہت دکھ ہوتا ہے جب اپنے ہی اپنوں کا خون بہاتے ہیں، تشدد ڈھاتے ہیں۔ جب مسلمان ہی مسلمان کے مقابل آتے ہیں۔ جب پاکستانی ہی پاکستانیوں پہ لاٹھی برساتے ہیں۔ ظالم بھی ہمارے اپنے اور مظلوم بھی ہمارے۔  کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آج آخر ہو کیا رہا ہے؟ مجھے الیکشن 2013ء میں دھاندلی یا لانگ مارچ کے فیصلے کے صحیح کیا یا غلط ہونے یا قادری صاحب کے انقلاب سے کوئی غرض نہیں کہ ان سب موضوعات پر ایک رکشے والے، سبزی والے سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بیٹھے سب بحث کر رہے ہیں۔

ہاں لیکن میرے اپنے ہی مسلمان، میرے اپنے ہی پاکستانیوں پر ظلم خواہ وہ ریاست کی جانب سے ہو یا ان دھرنوں والوں کی جانب سے۔ مجھے اس کا دکھ ہے۔ مجھے اس کا بھی دکھ ہے کہ میرے وطن کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ مجھے اس کا بھی دکھ ہے کہ یہ قوم دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم درحقیقت کتنے پرامن لوگ ہیں۔ مجھے اس کا بھی دکھ ہے کہ آج ہمارے وطن میں ہر طرف سیلاب ہے۔ کہیں پہ چنابی سیلاب، کہیں پہ سیاسی سیلاب۔

میرے سب لوگ موجودہ سیاسی صورتحال پر افسردہ ہیں اور غیرجانبدار ہو کر ملک و قوم کے وسیع مفاد میں جب سوچتے ہیں تو انھیں کوئی بھی موجودہ پارٹی قائد مکمل طور پر اس قابل دکھائی نہیں دیتا کہ جس کی حقیقتاً آج اس قوم کو ضرورت ہے۔ کافی حد تک عمران خان صاحب کی باتوں میں صداقت کی مہک آتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کے کئی اقدامات کو میں ذاتی طور پر قابل ستائش نہیں سمجھتی جیسے سول نافرمانی کی تحریک یا طاہر القادری  کے سیاسی کزن بن جانا وغیرہ۔

عمران خان صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج اس قوم کو اگر آپ یہ پیغام دیں گے کہ کوئی ٹیکس نہ دو، کوئی بجلی کا بل نہ دو، تو پھر کل آپ ہی کو انھیں قائل کرنا مشکل ہوجائے گا کہ اب بجلی کا بل اور ٹیکس لازمی دو، آپ نواز شریف کے استعفے کو پاکستان کے مفاد سے الگ پیرائے میں رکھیں اور لوگوں کو اس سول نافرمانی پر لگانے کی بجائے اپنی شرائط میں ایک شرط یہ رکھ دیتے کہ پاکستانیوں کے بجلی کے بل آدھے کرو یا ان کے ٹیکس آدھے کرو وغیرہ۔

دوسری طرف میری ذاتی رائے میں آپ اور طاہر القادری دو مختلف جماعتیں اور دو مختلف شخصیات ہیں۔ محض حکومت پر پریشر بڑھانے کے لیے آج کا یہ اتحاد کل آپ کو مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔ دو مختلف سیاسی پارٹیوں میں وقتی قربت خواہ کتنی ہی ہو لیکن بہرحال سیاسی قیادت کے بیچ ایک Line Draw ہونا بھی ضروری ہے تا کہ کارکنوں کو اپنا اپنا Line of Action  واضح ہو۔ وگرنہ پی ٹی وی پر حملہ جیسے واقعات رونما ہو جانے کی صورت میں خود سیاسی قیادت کو بھی وضاحت کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

باقی رہی بات موجودہ حکومت کی۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بھینس کے آگے آخر کب تک بین بجائی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا نہ کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے موجودہ مسائل بہت گمبھیر ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ قیادت بہت نااہل ہے۔ وگرنہ اس وقت قیام پاکستان سے قبل جو گمبھیر حالات تھے اس سے زیادہ بڑی مشکلات تو درپیش نہیں۔

کہاں ایک طرف Pro Hindu انگریز اور نفرت سے لبریز ہندو جو کہ تعداد میں بھی آپ سے کہیں زیادہ تھے اور کہاں ہمارے دھان پان سے نحیف وجود والے بلند حوصلہ قائد۔ چونکہ وہ نام کے ہی نہیں حقیقت میں اس قوم کے قائد تھے، اس قوم کے مخلص تھے، اس قوم کے لیے پرعزم تھے تو انھوں نے دو بڑے مگرمچھوں (ہندو اور انگریز) کے منہ سے یہ وطن نکال کر ہمارے حوالے کیا۔ لیکن آج المیہ یہ ہے ہمارے پاس سیاسی پارٹیوں کے مختلف قائد ضرور ہیں لیکن قومی قائد ایک بھی نہیں۔

عمران خان کی باتیں ذاتی طور پر کافی حد تک دل کو چھوتی ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ کہ جس میں غریب غریب تر ہوا چلا جا رہا ہے اور امیر، امیر تر وغیرہ۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر صحیح بات کرنے کا طریقہ ذرا سا بھی غلط ہو جائے تو وہ صحیح بات بھی ذرا سی غلط ہو جاتی ہے۔ عمران خان کو بھی ذرا سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک ڈی جے بٹ ترانے بجاتا رہے گا اور آخر کب تک ان کے ٹائیگرز پولیس کی لاٹھیاں کھاتے رہیں گے۔ دانش مندی یہ ہے کہ کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کیونکہ آپ اور میاں صاحب اگر دونوں ہی اس شعر کی مانند :

جان عارف ضدی تو بھی تھا انا مجھ میں بھی تھی

خود سر تھے دونوں جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

اکڑے رہیں گے تو آپ دونوں کی اس خودسری کا انجام بھیانک دکھائی دیتا ہے۔ کہیں تو پولیس کے ہاتھ معصوم شہریوں سے مزید خون آلود ہوتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں پولیس والے شہریوں کے ہاتھوں پٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ خدارا! نواز شریف صاحب اپنی سوچ بھی ایک وزیر اعظم کی سی رکھیں۔ ایک وزیر اعظم کو  نہتے لوگوں پر گولیاں چلوانا ہرگز زیب نہیں دیتا۔

بچپن میں دو بندروں کی لڑائی کی کہانی تو آپ سیاسی لوگوں نے بھی ضرور سنی ہوگی کہ روٹی کے ایک ٹکڑے پر دو بندروں میں لڑائی ہوگئی تیسرا بندر بڑی دیر سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا وہ آگے بڑھا اور لڑائی میں مصروف بندروں کو لڑنے میں مصروف رہنے دیا اور خاموشی سے روٹی کے ٹکڑے کو اٹھا کر کھا لیا وہ دونوں بندر جب لڑ لڑ کر تھک گئے تو دیکھا کہ جس روٹی کے ٹکڑے کے لیے وہ دست و گریباں تھے اسے تو کوئی اور ہی لے اڑا۔

تو جناب! جوش کے ساتھ ساتھ ہوش میں رہنا بھی ضروری ہے۔ کبھی کبھی تو  لگتا ہے کہ جیسے یہ اپنی اپنی ’’انا کی جنگ‘‘ لڑ رہے ہیں۔ افسوس کہ آج کا کوئی بھی سیاسی قائد مجھے قائل نہیں کر پاتا کہ صرف وہ 100 فی صد درست ہے۔ سب اٹھارہ کروڑ عوام کی بات کرتے ہیں کیا میں اس اٹھارہ کروڑ عوام میں نہیں؟ کیا مجھ جیسی سوچ کے حامل بیشتر پاکستانی جو نہ  ورکرز پر لاٹھیاں پڑتی دیکھ سکتے ہیں نہ  چلتی گولیاں، انھیں خوشی دیتی ہیں نہ پی ٹی وی پر حملہ نہ پولیس کا پھٹا یونیفارم باعث تحسین ہے ہم جیسوں کا حال تو اس ماں کے جیسا ہے کہ جس کے اپنے ہی دو بیٹے ایک دوسرے کو مارنے پر تیار ہو جائیں تو وہ ماں جائے تو آخر کہاں جائے؟

بہرحال کہنے کو تو بہت کچھ ہے، لیکن فی الحال اتنا ہی کہوں گی کہ نواز شریف صاحب جس دن آپ نے یہ سوچ لیا کہ عمران خان یا طاہر القادری کے ورکرز بھی آخر میرے پاکستانی ہیں بحیثیت پاکستانی وزیر اعظم ان کے جان و مال کی ذمے داری بھی ریاست کی ذمے داری ہے تو شاید ان مسائل میں کچھ کمی آ سکے۔ اور یوں ہی عمران خان اور طاہر القادری صاحب کو بھی زبان و گفتار کے استعمال میں تھوڑی سی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

کہیں اندر دل سے یہ آواز بھی آئی کہ کاش یہ سیاسی قائدین ایسی سیاست پروان چڑھاتے کہ ان کے اپنے ورکر سیاسی توپوں میں گولے بنا کر استعمال نہ کیے جاتے۔ سیاسی قائد خواہ کوئی بھی ہو اسے پہلے ایک انسانی جان، خاص طور پر اپنے ورکر کی جان بچانے کی بھی اتنی ہی فکر ہونی چاہیے جتنی اپنے دھرنے اور انقلاب کامیاب کرنے کی۔

موجودہ صورتحال کا بہترین حل سورۃ الحجرات کی آیات 9-10 میں موجود ہے۔ علما کرام آگے بڑھیں، اجتہاد کریں اور مسلمان کے ہاتھوں پر مسلمان کے خون کو لگنے سے بچائیں۔ میں نہ مانوں‘‘ کی سیاست کا یہی ایک حل ہے وگرنہ پاکستان کا آنگن اپنے ہی بچوں کی لاشوں سے بھر جائے گا اور پھر نہ کوئی پارلیمنٹ کی ضرورت رہے گی نہ انقلابوں کی کوئی صورت!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔