استاد اور سیاست

حسین مسرت  جمعـء 19 ستمبر 2014

کبھی خون میں ڈوبے ہوئے، لہولہان چہرے لیے ہوئے، کبھی دھکے کھاتے ہوئے، کبھی آگ میں جلتے ہوئے، کبھی پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہوئے، یہ کوئی عادی مجرم نہیں، نہ تخریب کار ہیں، نہ دہشت گرد ہیں۔ یہ اساتذہ جن کو قوم کے معمار کہا جاتا ہے۔ یہ اساتذہ دو سال سے کراچی میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کے ایک نمایندے نے کراچی پریس کلب کے آگے 26 جولائی 2013 کو خود سوزی کی کوشش بھی کی تھی۔ محکمہ تعلیم میں کام کرنے والے ان اساتذہ نے وزیر تعلیم کے حکم پر ڈیپارٹمنٹل امتحان بھی دے ڈالا۔ کامیابی کے بعد بھی ان کی تنخواہیں ابھی تک رکی ہوئی ہیں۔ بلاول چورنگی پہ ان کا دھرنا جاری تھا۔ 13 ستمبر 2014 کو وزیر تعلیم نے ان سے ملاقات بھی کی لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، مصیبت کے مارے برسر روزگار ہوتے ہوئے بھی بے روزگاروں جیسی زندگی گزارنے والے اساتذہ کا مطالبہ ایک ہی تھا۔

وہ آہستہ آہستہ بلاول ہاؤس کی طرف بڑھنے لگے تاکہ اپنے رہنماؤں کو اپنی داستان سنا سکیں اپنی پارٹی کے لوگوں کو التجا کرسکیں لیکن گھر کا تقدس تو انسان سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کسی سیاستدان کے گھر کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے انسان مرے تو مر جائے۔ جیسے ہی اساتذہ آگے بڑھے پولیس نے لاٹھی چارج کیا، ڈنڈے برسائے گئے، واٹرکینن سے حملے ہوئے، سارے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے بہت سارے مرد اور خواتین زخمی ہوئے۔ 14 اساتذہ کو گرفتار کیا گیا اور ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ پھر اساتذہ ہائی کورٹ گئے اور ضمانت پر رہا کیے گئے۔ 6 اگست 2012 کو ان اساتذہ کو اپائنمنٹ لیٹر ملے۔اساتذہ کے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے۔ نوکری کے اشتہار سے لے کر آفر آرڈر جس پر ڈائریکٹر ایجوکیشن کے دستخط بھی موجود ہیں۔ مذکورہ اشتہار کے تحت محکمہ تعلیم میں پورے سندھ میں بھرتیاں ہوئیں۔

کراچی اور سکھر ریجن کے اساتذہ کی تنخواہیں روک دی گئیں۔ وزیر تعلیم نے اعتراض کیا ہے کہ یہ جعلی بھرتیاں ہیں۔ ٹیچر ایکشن کمیٹی کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ وہ مسلسل اپنا پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے لیکن ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔ نہ ڈنڈے تھے، نہ غلیل تھے۔ نہ کسی قسم کے اوزار تھے۔ نہ کٹر مشینیں تھیں۔ نہ بم تھے، نہ ان لوگوں نے سیاسی نعرے بازی کی۔ نہ حکومت گرانے کی دھمکیاں دیں۔ نہ حکومت کو بلیک میل کیا نہ اپنے آفیسرز کے خلاف کچھ بولے اور نہ ہی ان کے پاس مطالبات کی کوئی لمبی چوڑی لسٹ تھی۔ نہ یہ لوگ حکومت کے خلاف کوئی لمبی چوڑی تحریک چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں افسوس کہ ان سب باتوں کے باوجود وہ اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ لوگ سفارشی تھے یا اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر آئے لیکن اب ان کا مسئلہ سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھتا نظر آرہا ہے۔

سابق وزیر تعلیم موجودہ وزیرتعلیم، سیکریٹری تعلیم یہ ان اساتذہ کے مسائل کا تکون ہے۔ اس کو وہی لوگ حل کرسکتے ہیں جن کے پاس اختیاراورطاقت ہے۔ روزگار کا وعدہ ہر سیاستدان کرتا ہے پھر جب بااختیار بنتا ہے تو کرسی پر پہنچتے پہنچتے بدل جاتا ہے غریب بے چارہ صاحب اقتدار کو وعدے یاد دلاتا رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سفارشی کلچر عام ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ نوکری ووٹ پر بھی ملتی ہے اور نوٹ پر بھی۔

اب جو لوگ ووٹ دے کر نوکری حاصل کرتے ہیں۔ اقتدارکی تبدیلی کے بعد اپنی نوکری کو نوٹ دے کر بچانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ طاقت اور اختیارکی ڈوریاں ہمیشہ تھوڑی ساتھ دیتی ہیں، یہ بدلتی ہیں تو بے چارے عوام کے دن بھی بدل جاتے ہیں۔وزارتیں تبدیل ہوتی ہیں تو پالیسیاں بھی تبدیل ہوتی ہیں پھر وفاداریاں تو ویسے ہی بدل جاتی ہیں۔ اب غریب لوگ کیا جانیں کہ اوپر کیا کچھ تبدیل ہوگیا، ان کو اپنے روز کی روزی روٹی کی فکر ہوتی ہے۔ جہاں ہر مسئلے کا حل ’’سفارش، پرچی اور فون‘‘ ہو وہ حقوق کی بات کرنے والے اسی طرح مارکھاتے ہیں جیسے سندھی اساتذہ نے کھائی تھی اساتذہ کی تنظیمیں زیادہ تر اپنے پروموشن، تبادلے اور گریڈ کی دوڑ میں لگی رہتی ہیں۔ تعلیمی اصلاحات کی بات کوئی نہیں کرتا۔

کراچی کے 3600 اساتذہ سیاسی مداخلت اور سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں کراچی میں 5000 سے زائد اسکولز ہیں جن میں اساتذہ کی جگہیں خالی ہیں۔ لیکن ان میں اساتذہ نہیں رکھے جا رہے۔وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ ان اساتذہ میں بنگالی اور گلگتی بھی شامل ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس میں غلطی کس کی ہے۔ ان بنگالی اور گلگتی لوگوں کو قومی شناختی کارڈ کس نے دلوائے؟ یہ لوگ گورنمنٹ کی نوکری کس طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟

اصلاحات شروع ہوں تو بھی سب سے پہلے نادرا کا ریکارڈ بھی چیک کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں ہزاروں غیرملکی موجود ہیں اور ہزاروں افغانی بھی قومی شناختی کارڈ حاصل کرچکے ہیں ان پر کسی نے آج تک غور نہیں کیا۔ حالانکہ اس کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے۔ یہی لوگ کل کلاں کو اسمبلی میں بھی پہنچ جائیں گے۔ الیکشن بھی لڑیں گے۔ کیا پھر انھیں کوئی نکال پائے گا؟ تعلیمی اصلاحات ہمیشہ سے سندھ کا خواب رہی ہیں۔ محکمہ تعلیم میں تو جتنے بھی لوگ رکھے جاتے ہیں وہ تحریری امتحان کے مرحلے سے گزرتے ہیں پھر زبانی امتحان اور پھر کچھ تربیتی کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ جن کے لیے پورے سندھ میں ٹریننگ کالجز موجود ہیں۔ لیکن اس وقت آدھے سے زیادہ ٹریننگ کالجز بند پڑے ہوئے ہیں جن میں اساتذہ کی تربیت کا کوئی بھی کام نہیں ہو رہا۔

تربیت دینے والوں کی تربیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور شعور اور تعلیم دینے والوں کی سماجی حیثیت بھی اہمیت رکھتی ہے، معاشرے میں استاد قلم چھوڑ کر جھنڈے بلند کرنے پر مجبور ہیں ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے والے مجرم گردانے جاتے ہیں۔ ٹیچرز جوکہ بیک وقت کئی مضامین میں تدریس کے فرائض انجام دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے وہ تنخواہ سے محروم ہیں، دوسری طرف ایسے بھی مہربان ہیں جوکہ اپنی جگہ کچھ کم پڑھے لکھے ضرورت مند نوجوانوں کو بھیج دیتے ہیں۔ خود کہیں اور کام کرتے ہیں اور اپنی آدھی تنخواہ انھیں دے دیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جوکہ اسکول جانے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کرتے اور ان کی آدھی تنخواہ بھی کسی نہ کسی ’’بااثر‘‘ کی جیب میں پہنچ جاتی ہے۔ کرپشن کی کوئی ایک شکل نہیں ہے۔ بہت سارے راستے ہیں بہت ساری شکلیں ہیں یہ راون ہے۔

جس کے 100 سر ہیں اور ہمارے پاس ایسا کوئی ’’تیر‘‘ ابھی تک بنا نہیں جوکہ صحیح ’’سر‘‘ کو نشانہ بناسکے جس سے راون مر جائے۔ محترم استادوں کو اعلیٰ اختیارات رکھنے والوں کی طرف سے القابات تو بہت ملتے ہیں جیسے ’’گوسڑو ماسٹر،کام چور، ڈیوٹی چور، نعرے باز،انتشار پھیلانے والے‘‘ لیکن نیک مقصد سے وابستہ لوگوں کی عزت نفس اور حقوق کی حفاظت کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے جو اساتذہ غلط راستے اپناتے ہیں ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے لیے بھی تو چند لفظ لغت میں ہوں گے۔ یہ نظام اساتذہ کا بنایا ہوا نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ جب ناانصافی ہوگی تو احتجاج بھی ہوگا۔

کرپشن کے نظام میں ہر کوئی مہرا ہوتا ہے ہر کوئی بے جان کٹھ پتلیوں کی طرح حرکت کرتا ہے۔ جن کی ڈور کہیں اور سے ہل رہی ہوتی ہے وہ ہاتھ جب حرکت کرتے ہیں تو کٹھ پتلیاں حرکت کرتی ہیں۔ جب رک جاتے ہیں تو ان کی حرکت تھم جاتی ہے۔ اساتذہ کا مطالبہ ماننا یا نہ ماننا حکومت کے بس میں ہے۔ شاید ان سب کو برطرف کرکے اور لوگوں کو ان کی جگہ پر تعینات کردیا جائے۔ لیکن اس ساری جنگ میں تعلیمی تعطل کا ٹوٹنا اور طلبا کے وقت کا ضیاع جو ہوگا اس کا ذمے دار کون ہوگا؟ اس کا خمیازہ کون بھگتے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔