طاہر القادری نے دھرنے کے40 روز بعد حکومت کے دھڑن تختے کی دھمکی دے دی

این این آئی / آن لائن  ہفتہ 20 ستمبر 2014
عمران سے لندن میں اچانک ملاقات ہوئی، کوئی پلان نہیں بنا، مشترکہ اجلاس سے عوام کو کچھ نہیں ملا، دھرنے سے خطاب  فوٹو : آن لائن

عمران سے لندن میں اچانک ملاقات ہوئی، کوئی پلان نہیں بنا، مشترکہ اجلاس سے عوام کو کچھ نہیں ملا، دھرنے سے خطاب فوٹو : آن لائن

اسلام آباد: عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ دھرنا40 دن چلے گا اس کے بعد حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔

طاہر القادری کا دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت بیرونی امداد اور کرپشن ثابت ہونے پر سزائے موت کا قانون بنائے، ہم پر بیرونی ایجنسیوں سے پیسے لینے کے الزامات کی تحقیقات کروانے کے لئے عدالتی کمیشن بنا لے یا بین الاقوامی کمیشن سے انکوائری کروالے، ایک روپے کی امداد ثابت ہوجائے تو مجھے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے تسلیم کیا کہ پی ٹی وی پر حملے کے ملزمان کی جاری کردہ تصاویر میں کچھ تصاویر پی ٹی وی کے ملازمین کی بھی ہیں، گویا ہماری نشاندہی سچ ثابت ہو چکی ہے۔

طاہر القادری نے کہا کہ سعد رفیق کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ہم نے بیرونی ایجنسیوں سے پیسے لیکر احتجاج کا آغاز کیا ہے، سعد رفیق اور ان کی حکومت کسی بھی بیرونی اور اندرونی خفیہ ایجنسی سے پیسے لینے والوں کی سزا موت مقرر کردے اور ہم پر فنڈنگ لینے کا الزام ثابت کردے اور پھانسی پر لٹکا دے لیکن حکومت ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ اس میں بہت سے ’پردہ نشینوں‘ کے نام بھی آتے ہیں۔ انھوں نے کرپشن ثابت ہونے پر بھی پھانسی کی سزا کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے جاری مشترکہ اجلاس پر62 لاکھ روپے روزانہ کا خرچہ ہو رہا ہے مگر اس مشترکہ اجلاس میں عوام کے بھلے اور آئین پر عمل درآمد کے سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

علاوہ ازیں نجی ٹی وی کو انٹرویو میں طاہرالقادری نے لندن پلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے لندن میں ان کی ملاقات اچانک ہوئی تھی، پلان نام کی کوئی چیز نہیں، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ملاقات کسی تیسری قوت نے کرائی، ملاقات میں کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ہماری ایف آئی آر کا ذکر تو کرتی ہے لیکن یہ بتائے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو چھوڑ دیں باقی نامزد ملزمان میں سے آج تک کوئی بھی گرفتاری ہوئی اور نہ ہی کوئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔