(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کاغذی قیامت

انجینئر زوہیب اکرم  اتوار 21 ستمبر 2014
کرنسی پر گو نواز گولکھنے کی تحریک تو تو اسٹیٹ بینک نے ناکام بنادی ۔۔۔۔ لیکن کوئی بات نہیں میرا طاہرالقادری اور اُن کے پیروکاروں کو مشورہ ہے کہ اب اپنی تعلیمی اسناد، جائیداد کے کاغذات اور اپنے ویزا اور پاسپوڑٹ پر لکھ کر حکومت مخالف تحریک کا چلاتے رہیں  فوٹو: فائل

کرنسی پر گو نواز گولکھنے کی تحریک تو تو اسٹیٹ بینک نے ناکام بنادی ۔۔۔۔ لیکن کوئی بات نہیں میرا طاہرالقادری اور اُن کے پیروکاروں کو مشورہ ہے کہ اب اپنی تعلیمی اسناد، جائیداد کے کاغذات اور اپنے ویزا اور پاسپوڑٹ پر لکھ کر حکومت مخالف تحریک کا چلاتے رہیں فوٹو: فائل

جی نہیں یہ کسی مضمون کا  عنوان نہیں  بلکہ عمران سیریز کے ایک مقبول ناول کا نام ہے ۔۔۔ عمران سیریز، پاکیشیا سیکرٹ سروس ، ایکسٹو، وغیرہ وغیرہ  ، جاسوسی ادب کے شائقین ان تمام الفا ظ سے آشنا ہوں گے  اور جو نہیں ہیں  بہترہوگا وہ  کسی اچھی لائبریری میں جا کر عمران سیریز کا مطالعہ کرلیں۔

تو جناب  بات ہورہی تھی ’’کاغذی قیامت ‘‘ نامی مظہر کلیم کے ایک جاسوسی ناول کی  جس کا  مرکزی کردار’’ علی عمران‘‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ  مل کر ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرتا ہے۔۔ اس ناول کی خاص بات  یہ تھی کہ مصنف نے  پہلی بار دشمنوں کو  جعلی کرنسی نوٹوں  کے ذریعے ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھاتے ہوئے دکھایا تھا۔اس قدر تیزرفتار ، سنسنی خیز اور ایڈنچر سے بھرپور ناول کی یاد آج اس وقت آگئی جب مختلف عوامی حلقوں میں ایسے کرنسی نوٹ گردش کرتے پائے گئے جن پر’’گو نواز گو‘‘ لکھا تھا۔ گویا اس خیال کے موجد یہ چاہتے تھے کہ  گونواز گو کی تشہیری مہم پاکستانی کرنسی کے ذریعے پھیلائی جائے ۔۔

غالباً جس طرح  برصغیر میں  ریشمی رومال کی تحریک بپا کی گئی ۔۔ نہیں ہرگز نہیں یہاں ان دونو ں تحریکوں کا موازنہ مقصود نہیں  بلکہ صرف میکینزم قابل غور  ہے ۔۔ اور ویسے بھی  اس قسم کے غدر اور اس کنٹینر مارکہ انقلاب کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ  جیل کے قیدیوں نے شروع کی  تھی اور یہ انا کے اسیروں نے۔۔ بات کہیں اور نہ نکل جائے اس لیے سیدھا  موضوع پر آتا ہوں ۔۔

بقول مدیر محترم ،  اِدھر اُدھر کی مت ہانکیں ون پوائنٹ ایجنڈے پر بات کیا کریں ۔ ہمارے قاری کو مصالحہ نہیں حقیقت پڑھنے کا شوق ہے مصالحہ تو اور بہت جگہ مل جائے گا۔ مثلا ًپی ٹی آئی اور عوامی تحریک کےجلسوں میں۔۔جی تو ون پوائنٹ ایجنڈے  کے مطابق ۔ کرنسی نوٹ پر گو نواز گو لکھ کر انقلاب لانے والوں سے کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔جواب میں چاہیں تو گالیاں  دے دیں ۔۔ لیکن خیال رہے کہیں اس بار بھی تبدیلی کی آس میں نمبر تبدیل ہو کر کال یا ایس ایم ایس عمران خان کو نہ پہنچ جائے جیسا جاوید چوہدری صاحب کے کالم کے نتیجے میں ہوا۔۔ اب یہ آپکو یاد تو ہوگا ؟؟ خیر تو سوال کچھ یوں ہیں۔

سوال نمبر ۱:  کیا  طاہرالقادری القادری صاحب اور ان کے  مقلدین ، اپنی تعلیمی اسناد، جائیداد کے کاغذات، اپنے ڈومیسائل وغیرہ یا اپنے بینک کے چیکس وغیرہ کو اس طرح ضائع کرنے کی ہمت رکھتے ہیں ؟؟ مثال کے طور پر اوور رائیٹنگ  یا پھر اپنے نام کو کاٹ کر یا اس کے ہجے بدل کر لکھنے سے ان کے تمام مذکورہ کاغذات ضائع ہو سکتے ہیں تو پھر بسم اللہ کریں ۔۔ کیوں کہ یہ بھی تو اس کرپٹ حکومت کے کرپٹ اداروں کی جاری کردہ اسناد اور سودی نظام کےتحت چلنے والے بنکوں کے چیکس ہیں ؟ اور سب سے بڑھ کر کیا قادری صاحب اپنے پاسپورٹ اور ویزا کے ساتھ یہ حرکت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں سکتے ہیں ؟

سوال نمبر ۲: جن اداروں اور حکومت کے خلاف ہونے کا دعوی کر نے والے یہ معصوم ، مجبور اور محکوم قسم کے  لوگ بمع اہل خانہ  دارالحکومت میں  دھماچوکڑی مچائے ہوئے ہیں اسی  سرکار کے سرکاری اسٹیٹ بینک نے ایک آرڈر دیا کہ اس طرح کے نوٹ قابل قبول نہیں ہونگے جن پر ایسی کوئی حرکت کی گئی ہو۔۔ تو سارے انقلابی ٹھنڈے پڑ گئے ۔۔  پھر بھی کچھ لوگوں کو چین نہیں آیا تو نوٹوں پر سفید رنگ کی چٹ سی لگا کرنوٹوں کے ساتھ یہی  حرکت کرنے کی کوشش کی جس پر بھی’’گو نواز گو‘‘  لکھا ہوا تھا، مقصد یہ تھا کہ کسی طرح تحریک جاری رہے ۔۔ اور ظاہر ہے کہ جب نوٹ سے کچھ خریدنا یا خرچ کرنا مقصود ہو تو چٹ اتار لی جائے ۔۔ اور پھر اس طرح کی حرکتیں کرکے یہ دعوے کرنا کہ ’’ہم اسٹیٹ بینک کی سننے والے نہیں ہے‘‘۔ کیا انقلاب کے پنپنے کی یہی باتیں ہیں  ؟

سوال نمبر ۳: نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار انقلابیوں نے کبھی یہ سوچا کہ جن نوٹوں کو وہ خراب کر رہے تھے ۔ جانے انجانے میں ان  پر تصویر کس کی بنی ہوئی ہے؟ اس کو بھی کمپیوٹر کے ذریعے  ایڈیٹ کرکے قائد اعظم کو’ گونواز گو‘ کہتے ہوئے دکھایا ہے ۔۔ آج تک کسی نے قائد کی تصویر کے ساتھ مذاق میں بھی ایسی رزیل حرکت کی ؟؟ نیا پاکستان بنا کر کیا بانی پاکستان کے ساتھ یہی سلوک ہونا ہے ؟۔۔ ؟ ہو بھی سکتا ہے ۔ جب نیاپاکستان بنانے والے کی نیت شادی کی ہو تو پھر کیا نہیں ہو سکتا۔۔  اور تو اور ان صم کم نوجوانوں نے یہ نہیں سوچا۔۔ کہ اگر اسٹیٹ بینک کے سخت احکامات نہ ہوتے اور ان کی یہ کرنسی نوٹوں والی قبیح مہم  کامیاب ہوجاتی تو حاصل وصول کیا ہونا تھا ؟ یہی  نا کہ حکومت کو نئے نوٹ چھاپنے پڑتے،  اور نوٹ چھاپنے کے لیے  کاغذ اور چھپائی پر آنے والا خرچہ کیا بنی گالہ والے عمران دیتے یا کینیڈا کے قادری  صاحب؟ یا پھر اُن کے مخالف نواز شریف صاحب؟ نہیں جناب وہ میری آپ کی تنخواہوں سے  ٹیکس کی شکل میں کٹتا اور پھر مہنگائی کا جو طوفان آنا تھا وہ بھی ہمیں ہی برداشت کرنا تھا ۔۔۔ آخر میں اگر گالیاں دینی ہو تو ضروردیں لیکن آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر۔۔ کیوں کہ وہ زیادہ مستحق ہے ۔۔ ہم توکہیں گے سچ چاہے کسی کواچھا لگے یا بُرا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

انجینئر زوہیب اکرم

انجینئر زوہیب اکرم

صاحبِ تحریر الیکٹرونکس انجینئر، مزاجاً تحقیق کار اور شوق کے اعتبار سے بلاگر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔