(دنیا بھر سے) - کاش میں برطانوی شہری ہوتا

عاقب علی  ہفتہ 20 ستمبر 2014
اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے 300 سال کے رشتے کو ختم کرنا چاہا تو کسی نے غدار نہیں کہا اور ریفرنڈم کے نتیجے میں شکست ہوئی تو کسی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگا ۔۔۔ شاید یہی ہے جمہوریت اور یہی ہے اقدار۔ فوٹو: رائٹرز

اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے 300 سال کے رشتے کو ختم کرنا چاہا تو کسی نے غدار نہیں کہا اور ریفرنڈم کے نتیجے میں شکست ہوئی تو کسی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگا ۔۔۔ شاید یہی ہے جمہوریت اور یہی ہے اقدار۔ فوٹو: رائٹرز

اللہ کی پناہ، میں 18کروڑ آبادی کے کیسے ملک میں رہتا ہوں ، یہاں کیسے کیسے عجوبے پیدا ہوتے ، پنپتے اور پروان چڑھتے ہیں ،اس پر اللہ کی پناہ نہ مانگی جائے تو کیا کیا جائے؟۔

نواز شریف ،عمران خان، آصف زرداری،مولانا فضل الرحمن کہنے کو تو عوام کی رائے کو اہمیت دینے والے جمہوریت پسند ہیں۔ان کی اکثریت جمہور اور جمہوری نظام سے عشق کی دعویدار بھی ہے بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی،اڑھنا بچھونا اور سنبھل سنبھل کر چلنا سب کچھ جمہور کے زخموں سے رستے لہو پر پوھے رکھنے کی کوشش ہے۔وہ بھی ایسی کوشش جس نے ہر بار زخم کو ہرا ہی کیا ہے۔

یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کی باتیں نہیں ،سمجھنے اور ان کو آئینہ دکھانے کی باتیں ہیں۔ لیکن اس سے قبل آپ جمہوریت کی تازہ ترین تصویر دیکھئے۔ اوران سب جمہوریت پسند لیڈروں کو تولیے کون کھرا اور کھوٹا، اور کون دعوے میں سچا اور جھوٹاہے۔اسکاٹ لینڈ 1707ء سے متحدہ برطانیہ کا حصہ چلا رہا ہے یعنی 3 سو برس کی محبت۔ اس محبت میں دراڑ ڈالنے کی آوازیں اٹھنے لگی ،اس مقصد کیلئے قیادت کے فرائض اسکاٹ لینڈ کے شہری اور فرسٹ منسٹر ایلیکس سیمنڈنے کی ۔تو برطانیہ کی حکومت نے عوامی ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا ۔

ان آوازوں پر کسی نے الزام لگایا نہ ناجائز حق قرادیا۔عوامی ریفرنڈم کے نتائج آئے تو 55 فیصد عوام نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کا اعلان کیا اور 45فیصد نے آزادی کے حق میں رائے کا اظہار کیا۔ ان نتائج کے اعلان پر اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر نے دھاندلی کا وویلا کیا اور نہ ہی حق پر ڈاکے کا شور مچایا۔بلکہ اس نے اسکاٹ لینڈ کے ان 45 فیصد ووٹرز سے کہا کہ وہ اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کریں اور برطانیہ کے ساتھ رہیں۔وجہ کیا ہے صرف ایک جمہوری روایات کی مضبوطی۔ حقیقی جمہوریت پر ایمان کا دعوی نہیں یقین۔ یہ مثال میں نے اُس برطانوی معاشرے سے دی ہے کہ جس میں عمران خان صاحب آپکے بچے اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور جس کی جمہورت کے قصیدے ہر روز رات کو اپنے شرکا دھرنا کو شربت کی طرح پلاتےہیں اور نواز شریف صاحب اِسی برطانیہ میں آپ کے خاندان نے کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے ۔ اب اس پورے عمل میں نواز شریف ، عمران خان اور آصف زرداری کیلئے بہت کچھ ہے پر کون ہے جو حقیقت کو تسلیم کرے؟۔

نواز شریف کہتے ہیں مجھے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں نے منتخب کیا ، میں چند ہزار کے مطالبے پر استعفیٰ کیوں دوں۔ درست جناب پر آپ تین بار اقتدار میں آئے اور آپ کے چھوٹے بھائی آپ سے زیادہ بار پنجاب کے خادم بنے مگر عوام کی مشکلات کا حل ، ہاں جناب حل کہاں ہے؟۔آپ کی آنیاں جانیاں نہیں نتائج بھی تو عوام مانگتی ہے ۔مگر اس حوالے سے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا دامن خالی ہے ورنہ سیلاب کی تباہ کاریاں اتنی شدید نہ ہوتیں کہ چھ برس کی کارکردگی کاپول کھل جاتا۔

عمران خان کہتے ہیں عوام کو کرپشن ، لاقانونیت اور بدامنی سے پاک نیا پاکستان دینے کیلئے دھرنے پر بیٹھے ہیں، احتجاج ان کا حق ہے،ان کی ہر طرح کی سرگرمی اور بیان پر حکومت خاموش رہے ،بولنے کا مطلب مجھے حق سے محروم کیا جارہا ہے ، جس کی کوئی روایت مغرب کے جمہوری نظام میں نہیں ملتی۔یہ بھی درست جناب۔  پر عمران خان صاحب آپ کے ساتھیوں کے صرف حقوق ہی ہیں یا کچھ فرائض بھی ہیں ؟جنہیں بہرحال ہر پاکستانی نے ادا کرنا ہے یقیناًآپ کو صرف پاکستانی نہیں محب وطن پاکستانی کہتے ہیں تو پھر آگے بڑھیے من پسند جمہوریت کا راگ الاپنا چھوڑئیے ۔سچائی کو مانئے کہ عوام نے آپ کو پرفارم کرنے کیلئے ایک صوبہ دیا ہے۔اپنی قیادت کا جوہر دکھائیں او رپانچ برس بعد ملک کی باگ دوڑ سنبھالئےاور زرداری صاحب نے تو پانچ برس پورے کرنے کی خواہش میں مفاہمت کے نام پر کرپشن کی نئی تاریخ ہی رقم کردی، اس حوالے سے ان کا نام ہمیشہ روشن ہی رہے گا۔

مجھ سمیت ہر کوئی مانتا ہے کہ پاکستان کے الیکشن پراسس کو بہتر ، صاف شفاف، مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے کچھ عملی اقدامات کی از حد ضرورت ہے ۔اس کیلئے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اکھٹی بھی ہوچکی ہیں ۔ ان سے گزار ش ہے اپنے اپنے مطلب کی جمہوریت کے بجائے حقیقی جمہوریت کی طرف عوام کا رخ موڑیں، درست جمہوری روایت کو پروان چڑھائیں، پرفارم کریں ورنہ گھر بیٹھیں۔

احتجاج کا مطلب ملک کی ترقی کا سفر روکنا ہے اور نہ ہی ترقی کے شور میں اپنوں کو نوازنے اور بچانے کی بھرپور کوشش ۔ میری عوام سے بھی گزارش ہے آپ کے مفادات اپنی جگہ پر آپ کی ذات کسی بھی طرح ملک و قوم سے بڑی نہیں۔خود کو سمجھیں ،جھوٹے سچے سمجھوتے نہ کریں ورنہ اس جرم کی سزا مرگ مفاجات کے سوا کچھ نہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔