مزاحمتی ’واقعات‘ کی اہمیت

عمران شاہد بھنڈر  اتوار 21 ستمبر 2014
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنوں کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔دھرنوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے سیاسی پنڈتوں کی جانب سے کئی دلائل دیے گئے اور قیاس آرائیاں کی گئیں لیکن وقت کے ساتھ سب جھوٹی ثابت ہوئیں اور بالآخر دم توڑ گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ دھرنوں کو کسی نہ کسی نقہ نظر کی وکالت کرتے ہوئے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی یا کسی نہ کسی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے دھرنوں کی اپنی آزادانہ حیثیت کا انکار کیا جارہا تھا۔

مطلب یہ کہ پاکستان میں خوشحالی سرایت کرچکی ہے، اس لیے دھرنوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔بہرحال صورت حال بدستور قائم ہے۔دھرنوں میں شامل عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین کی مستقل مزاجی اور اپنے بنیادی موقف پر قائم رہنے کے رجحان سے ان کی اپنے مقاصد اور اہداف کے ساتھ سنجیدگی کا پہلو بھی شک سے بالا ہوتا جارہا ہے۔

عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار، حکمت عملی اور تنظیم سازی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان اہداف اور مقاصد کی کامیابی تک دھرنوں کو جاری رکھنے کا عزم ایک قابلِ ستائش عمل ہے۔ دھرنوں میں شامل لوگوں اور بحیثیت مجموعی پاکستان کے عوام کے لیے مزید یہ بہتر صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے کہ حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان اعلیٰ و ادنیٰ اقدار کی بنا پر قائم کی گئی تفریق و امتیاز میں کمی کا آغاز ہوچکا ہے ۔

لوگوں کے شعور میں یہ تصورات راسخ ہونے لگے ہیں کہ اقدار کی بنیاد پر حکمران اور محکوم طبقات کے مابین قائم کی گئی فوقیتی ترتیب (Hierarchy) فطری نوعیت کی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی ازلی وابدی اصول پر مشتمل ہوتی ہے جیسا کہ حکمران طبقات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ اقدار کی فوقیتی ترتیب کا تصور ریاستی پروپیگنڈا مشینری کی پیداوار ہوتا ہے۔

حکمرانوں کی طاقت اور آئیڈیالوجی کا مظہر ہوتا ہے۔ جہاں استحصال، ظلم و جبر اور تشدد ہو وہاں استحصال زدگان اور مظلوموں کا اٹھ کھڑا ہونا سازش کا نتیجہ نہیں ایک فطری عمل ہوتا ہے۔مثل فوکو کے الفاظ میں ’’جہاں طاقت ہوتی ہے وہاں مزاحمت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔‘‘ اقدارکی فوقیتی ترتیب کو مزاحمت سے پاش پاش کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے دلوں سے ظالم حکمرانوں کے خوف کو نکالا جاسکتا ہے۔ ان کے حقوق کے بارے میں ان کے شعور کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ ترقی پسندانہ پہلو ہوتے ہیں جو عوامی مزاحمتی تحریکوں کا جزوِ لازم ہوتے ہیں۔

انقلابیوں کی نظر محض حکمران طبقات کے تصورِ ارتقا پر ہی نہیں بلکہ اس’ شگاف‘ پر بھی ہونی چاہیے جو عوامی تحریکوں کے برپا ہونے سے کسی بھی سیاسی ڈھانچے کے اندر رونما ہوتا ہے۔ مزاحمتی تحریکوں سے یہ شگاف اسی وقت رونما ہوتا ہے جب اس کے لیے جگہ استوار ہوچکی ہے۔ حقیقت میں یہ شگاف حکمرانوں کے تصورِ مرکزیت اور تصور کلیت میں شگاف ہوتا ہے، جسے وہ اپنی آئیڈیالوجی اور طاقت سے دبانا چاہتے ہیں۔

آخری تجزیے میں اس شگاف کی نوعیت انقلابی نہیں، اصلاحی ہوتی ہے۔ تحریکیں جب پروان چڑھتی ہیں تو اس وقت اس بحث میں الجھنا اتنا ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اصلاحی ہیں یا انقلابی! بلکہ مزاحمت میں شدت لانا اور اسے گہرا کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے تاکہ اصلاحی کو انقلاب میں تبدیل کیا جاسکے۔ طاہرالقادری کے مطالبات اصلاحی نہیں انقلابی ہیں، جب کہ ان کی تحریک کی تاریخ اصلاح پسندی کی آئیڈیالوجی میں مقید ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو عوامی تحریک کے وسط میں موجود ہے، جو حالیہ واقعے سے ظاہر ہوا ہے۔ کارکنان کی تربیت تصورِ انقلاب پر نہیں ہوئی، اصلاح پسندی کے تصور پر ہوئی ہے۔

موجودہ تحریکوں کو برپا کرنے سے پہلے ضروری تھا کہ تصورِ الٰہیات کو اپنے پیچھے کھڑے ہونیوالے لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنے کے علاوہ اشتراکی سبق کو بھی ان کے اذہان پر نقش کرتے جس کے نعرے وہ اب بلند کررہے ہیں۔صرف عوامی تحریک میں شامل افراد کی ہی ذہنی تربیت نہ کرتے بلکہ  جبر واستحصال اور ظلم و بربریت سے نجات پانیوالی آئیڈیالوجی کا دائرہ دوسرے شعبہ حیات سے منسلک لوگوں تک بھی وسیع کردیتے جس سے تحریک کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے تھے۔

عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی قیادت کی تقاریر سے نہ صرف قائدین بلکہ عوام کے عزائم کی پختگی بھی صاف نظر آرہی ہے۔ ان تحریکوں کی کامیابی یہ ہے کہ ان کو مزید طول دیا جائے۔ دھرنوں کی شکل میں جو ’واقعات‘ اسلام آباد میں برپا ہوئے ہیں انھیں محض سطح تک نہیں بلکہ حقیقی واقعات میں تبدیل کردیا جائے۔ واقعات کو اثر انگیز بنایا جائے۔ مایوسیوں کا مرحلہ اب گزر چکا ہے۔ قیاس آرائیاں کرنیوالے اپنی آرا تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔

ایک مرحلہ ایسا آجاتا ہے کہ طبقاتی شعور پر نظررکھنے والے قائدین لوگوں کے شعور، خواہشات اور جذبات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔اور پھر واقعات کا اندرونی میکانزم اہداف کا تعین کرنے لگتی ہے۔ کوئی بھی واقعہ ایک حقیقی ’واقعہ‘اس وقت بنتا ہے جب وہ اپنے قائدین کے متعین کیے گئے اہداف اور اس میں شامل طبقات کی خواہشات سے آگے نکل جانے کی استعداد رکھتا ہو، یعنی اس میں شمولیت کے لیے جس جوش و خروش اور ولولے کی توقع عوام سے کی جارہی ہو، عوام اس سے کہیں زیادہ جوش و ولولے سے اس واقعے کو ایک نئی سمت عطا کردیں۔

واقعات کی اپنی حرکیات اور میکانزم ہوتا ہے، جس میں قائدین اور لوگوں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کے بہترین مواقعے ہوتے ہیں۔قائدین کی تقاریر اگر  حکمرانوں کے حقیقی چہروں کو بے نقاب کررہی ہوں تو اس سے نہ صرف تحریکوں میں شامل لوگوں کی بہترین فکری تربیت ہوتی رہتی ہے، بلکہ ان کی آئیڈیالوجی کے مخالف لوگ بھی ان سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور تحریکوں کے طوالت اختیار کرجانے سے یہ امکانات بھی ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں کی اکثریت ان تحریکوں کا حصہ بن جائے۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں کہ قائدین کی ترجیحات کی بنا پر جن تحریکوں کا آغاز اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے ان کا رجحان نیچے سے اوپر کی جانب ہونے لگتا ہے۔

عوامی تحریک میں شامل لوگوں کی اکثریت متوسط طبقات، ان کی نچلی پرتیں اور محنت کشوں کے ایک خاص حصے پر مشتمل ہے۔طاہرالقادری کے تمام نعرے جہاں اس ظالمانہ نظام کے خلاف ہیں تو وہاں حکمران طبقات کے  استحصال کو بھی نمایاں کرتے ہوئے پاکستان کے اسی فیصد لوگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود متوسط طبقات کی نچلی پرتیں اور محنت کشوں کی اکثریت ان کے دھرنوں میں شامل نہیں ہے۔

عوامی تحریک کی قیادت کو اس اہم نکتے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اور اپنی تحریک کو ہر طرح کی آئیڈیولاجیکل آلائش سے ماورا رکھتے ہوئے محنت کشوں کی اکثریت کے ساتھ صرف ان ھی نکات یعنی افلاس و غربت کا خاتمہ، تشدد و دہشت کی شکست و ریخت، ظلم و ناانصافی کا قلع قمع کرنا، پر اتحاد کرنے کی ضرورت ہے جو عوامی تحریک اور پاکستان کے محنت کشوں میں مشترک ہیں۔ عوامی تحریک کو ان مشترک بنیادوں پر ہر شعبہ حیات میں موجود لوگوں سے ربط استوار کرتے ہوئے مزاحمت میں شدت لانی ہوگی اسی صورت میں تحریک کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔