پاکستان جاگ گیا ہے

نسیم انجم  اتوار 21 ستمبر 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دھرنوں کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے، لیکن ہر طرف گہری خاموشی ہے کوئی انصاف فراہم کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا ہے ریڈزون کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن سرکار کے لیے اقتدار سے بڑھ کر نہ قانون ہے اور نہ ریڈزون۔ اگر قانون کے محافظ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے تو حالات تبدیل ہوچکے ہوتے لیکن چپ سادھ لینا ہی ان کے لیے شاید بہتر عمل ہے۔

عمران خان اور ان کی جماعت ملک کی بہتری اور عوام کی بھلائی کے لیے بڑی طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہے یا کوئی ذاتی مقصد درپیش ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے اور اب عوام ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، کل کا ہی واقعہ اہل اقتدار کو ہوش میں لانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام نے ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جو انھیں حشرات الارض سمجھ رہے تھے۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں پاکستان جاگ گیا ہے۔

پرواز میں تاخیر پر مسافر بپھر گئے تھے انھیں بپھرنا بھی چاہیے کہ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اب انھیں عمران خان کی شکل میں ایک ایسا لیڈر مل گیا ہے جس نے انھیں جرأت، بہادری کا سبق سکھایا ہے، اپنے حقوق حاصل کرنے کا درس دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عوام حکومت کا دیا ہر دکھ اور زیادتی صبر و تحمل کے ساتھ سہہ جاتی ہے، خود بھوکی رہتی ہے اور اپنی محنت و مشقت کی کمائی چوروں و لٹیروں کے سپرد کردیتی ہے۔

اب دیکھیے ناں چھوٹی سی مثال ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے تندوری روٹی اور ڈبل روٹی مہنگی ترین فروخت کی جانے لگی، سموسہ 7 روپے سے 8 روپے اور اب 8 روپے سے بڑھ کر 11 اور 12 روپے کا ہوچکا ہے اور جب کہ  میدہ اور آٹا تو اسی دام ہے لیکن پوریوں کی قیمت میں ایک ساتھ 3 روپے کا اضافہ کردیا، 10 روپے کی پوری 12 میں اور پھر 15 روپے میں فروخت کی جانے لگی اور گزشتہ اتوار سے ایک پوری کی قیمت سترہ(17) روپے کردی گئی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام مہنگے داموں ہی خریداری کر رہی ہیں کوئی شکوہ شکایت اور باز پرس نہیں، ویسا ہی رش لگا ہوا ہے، شاید انھیں ظلم سہنے کی عادت پڑگئی ہے۔ حکومت کی طرف سے ظلم کرنے والوں کو کھلی چھٹی ہے۔

اس طرح اوپر سے لے کر نیچے تک 2 نمبر کام کرنے والوں کا بھلا ہوتا ہے، بھتے اور رشوت کی شکل میں یہ لوگ عوام سے دولت لوٹتے ہیں اور پھر حصے بخرے ہوجاتے ہیں ایک دن پتھارے والوں کو فٹ پاتھ سے ہٹایا جاتا ہے اور دو دن بھی نہیں گزرتے ہیں یہ رشوت دے کر دوبارہ آجاتے ہیں اور پھر اسی طرح باقاعدگی کے ساتھ پولیس اہلکار رات کے اندھیرے میں آکر ہر ٹھیلے والے سے مقررہ رقم وصول کرتے ہیں۔ عوام یہ منظر بھی کھلی آنکھوں سے دیکھتے  اور خاموش رہتی ہیں۔اگر وہ خاموش نہ رہے تو کیا کرے؟ آواز اٹھانے پر جھوٹے الزامات لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اس ملک میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان اپنی من مانی کر رہے ہیں اور مجرم قتل کرنے کے باوجود اپنے گھروں میں بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

اب دیکھیں ناں، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک پرامن جلسے کر رہی ہے، جہاں بھی یہ جماعتیں جاتی ہیں، وہاں کسی قسم کا نقصان نہیں کرتی ہیں اپنے اپنے لیڈروں کی تقاریر سنتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں اور بس، یہ تو ان کا جمہوری حق ہے ناں، لیکن افسوس کہ اسی جمہوریت میں آمریت شامل ہوجاتی ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی ہے۔ اور پھر کارکنان کو نہ کہ گرفتار کرتی ہے بلکہ تشدد بھی کرتی ہے، کسی پارٹی میں شامل ہونا اور اسے سپورٹ کرنا کوئی جرم تو نہیں۔

یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟ اور معصوم غلطیوں کو کرنے والوں کو اسلحے کے زور پر دھر لیا جاتا ہے۔ ویسے حقیقتاً عوام جاگ گئے ہیں اور انھوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اوروی وی آئی پی کو دیر میں آنے کی سزا کے طور پر جہاز سے اتار دیا گیا۔ اپنے آپ کو مغلیہ سلطنت کا بادشاہ اور وزیر سمجھنے کا یہ انجام ہوا۔ سالہا سال سے VIP موومنٹ کی وجہ سے رعایا مشکلات میں مبتلا ہے، اعلیٰ شخصیات بڑے کروفر سے گزرتی ہیں۔

گاڑیوں کی قطاریں، پولیس کے اعلیٰ افسران اور اسلحے کی نمائش، سیکڑوں گاڑیاں دوڑتی چلی جاتی ہیں، بے چارے ہزاروں لوگ دھوپ میں کھڑے گاڑیوں میں سوار، پسینے سے شرابور، منتظر رہتے ہیں کہ کب یہ قیامت خیز گھڑیاں گزریں تو وہ رکا ہوا سانس لے سکیں کتنے ہی مریض بروقت اسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے دم توڑ گئے ہیں لیکن کسی کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کہ اس بے قصور رعایا کا خون ان کے سروں پر ہے، روز قیامت اللہ کے حضور جواب دہ ہونا ہے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہے۔

اور اب اس جہاز کے واقعے نے عمران خان کی دی ہوئی جرأت اور درس کی دھوم مچا دی ہے، بھارت جیسے دوسرے ملکوں میں بھی اس بات کو سراہا گیا ہے کہ بے چارے مسافروں کے قیمتی وقت کو نہ کہ برباد کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے بلکہ پوری دنیا میں اپنے ملک پاکستان کا امیج بھی خراب کرنے میں یہی لوگ پیش پیش ہیں۔ موجودہ حالات نے لوگوں کو جہاں دل برداشتہ کیا ہے وہاں امید کے دیے بھی روشن کیے ہیں کہ اب اندھیرا ختم ہونے والا ہے، عمران خان اور جناب طاہرالقادری  اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کا ڈٹا رہنا ہی حکومت کو پسند نہیں آرہا ہے اور پسند آنا بھی نہیں چاہیے کہ ہزاروں لوگ جن میں بچے، عورتیں، ضعیف اشخاص بھی شامل ہیں جو سر راہ پریشانی کی حالت میں اس امید پر ٹھہرے ہوئے ہیں کہ ایک نیا پاکستان انھیں اپنے حصار میں لے گا۔

اور انھیں ڈور ڈنگر کے بدلے انسان ہی سمجھا جائے گا، جس اللہ نے مقتدر حضرات کو بنایا، اسی رب نے تمام کائنات بشمول انسان کو تخلیق کیا ہے۔ اگر حکومت اس مجمع کو ہٹانا چاہتی ہے گھر بھیجنا چاہتی ہے تو حکمران دھرنوں میں تشریف لے آئیں مذاکرات کریں اور اپنے اصولوں میں تھوڑی سی لچک دکھائی۔

اپنے لوگوں کے تحفظ اور آرام کے لیے لکڑی کی کمزور سی کرسی کی قربانی دیں، تاکہ پاکستان کا استحکام برقرار رہے، اس بات کو بھی ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ قوموں کی زندگیوں میں عروج و زوال آتے ہی رہتے ہیں اس لیے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں لگانے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے، اہل بصیرت وہ ہے جو اپنا احتساب خود کرتا ہے کہ آیا اس نے اپنے دور حکومت میں کون کون سی غلطیاں کی ہیں۔ کہاں کوتاہی ہوئی ہے۔ کتنے بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے جب انسان اپنے ضمیر کی عدالت میں خود پیش ہوتا ہے تب وہ رات کی تنہائی میں انصاف کی دھجیوں کو اڑتا اور پاتال میں گرتادیکھتا ہے۔

اسے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف دکھائی دینے لگتا ہے صرف چند سالوں میں صاحب اقتدار بن کر محض دولت کی طمع، ہوس زر نے اسے دلدل میں پہنچادیا اور اپنے اس رب کو بھول گیا جس نے رعایا کی بھلائی کے لیے اسے عزت و مقام عطا فرمایا تھا، جس نے اس کا استعمال صرف اور صرف اپنے اور اپنے خاندان والوں کے لیے کیا اور پورا پورا فائدہ خود ہی حاصل کر بیٹھا۔ لیکن احتساب کرتا کون ہے بس مکافات عمل تک مدہوش اور اپنی ہی جنت میں مست رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔