اب کیا ہوگا؟

موسیٰ رضا آفندی  اتوار 21 ستمبر 2014
moosaafendi@gmail.com

[email protected]

جب دھرنے شروع ہوئے تھے اس وقت بھی لوگ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ اب کیا ہوگا؟ اس سے پہلے بھی جب انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے اعلانات ہوئے تھے لوگ کہنے اور سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟ جب آزادی مارچ اور انقلاب مارچوں کی ایک ہی تاریخ یعنی 14 اگست کا باقاعدہ اعلان ہوا تھا لوگ سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟ جب دونوں دھرنے والوں نے ریڈ زون کے اندر داخل ہونے کا عندیہ دیا تھا لوگ سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟ جب دھرنے والوں نے ریڈ زون کے اندر مزید آگے بڑھنے کا اعلان کیا تھا لوگ سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟

ان سارے واقعات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ لوگ اس وقت مستقبل کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں جب کوئی انہونی واقعہ ہوتی ہے۔ وہ انہونی جس کا تعلق مسائل کی بیخ کنی سے نہیں بلکہ ان میں اضافے کے خدشات سے وابستہ ہو۔  مثلاً جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تو لوگوں نے یہ سوال نہیں کیا کہ اب کیا ہوگا؟جب جنرل مشرف نے بسنت کا تہوار باقاعدہ طور پر منانا شروع کروا دیا تو لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اب کیا ہوگا؟

اس وقت جب پورا ملک یہ سوچ رہا ہے کہ اب کیا ہوگا تو اس کا مطلب بھی صاف ظاہر ہے کہ لوگ محسوس کر رہے ہیںکہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ انھیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ان کا کیا بنے گا۔ لوگ اس وقت جس کرب اور اذیت کا شکار ہیں اور جن مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں چاہے وہ قدرتی ہوں سیاسی ہوں معاشرتی ہوں یا معاشی وہ انھیں سہہ سہہ کر تنگ آچکے ہیں اب ان مصیبتوں  اورآزمائشوں کو مزید برداشت کرنے کی ان میں طاقت نہیں رہی لوگ بالکل بے بس ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اس وقت بغیر کسی نظام یا انتظام کے جی رہے ہیں جس طرح سے لوگ جی رہے ہیں اسے جینا کہنا بھی سرا سر زیادتی ہے کیونکہ لوگوں کی دل ہلا دینے والی اکثریت کو اس وقت بالکل معلوم نہیں ہے کہ وہ اگر زندہ ہیں تو کیوں ہیں کیسے ہیں اور جینے کی یہ عارضی کیفیت کب تک برقرار رہے گی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا لوگ غلط سوچ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے ۔ وہ جواب اثبات میں نہیں نفی میں ہے۔ یعنی لوگ غلط نہیں سوچ رہے اس کی وجوہات بھی بالکل معروضی ہیں معروضی صورت حالات حقیقی صورت حالات کو کہتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں بجلی ، گیس کے بلوں، پٹرول کی قیمتوں اور اسکول کالج کی فیسوں نے حرام کر رکھی ہیں مہنگائی نے انھیں ماردیا ہے اُوپر سے سیلاب نے اُن سے ہر وہ چیز یا شئے، سہارا جسے وہ اپنا اثاثہ کہہ سکتے تھے چھین لیا ہے، وہ ا ب سکتے میں آگئے ہیں ان کا کوئی والی وارث نہیں رہا یہ سب کچھ اُس مسحورکن لفظ جمہوریت کے بے دریغ استعمال کا نیتجہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔