- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
اب کیا ہوگا؟
جب دھرنے شروع ہوئے تھے اس وقت بھی لوگ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ اب کیا ہوگا؟ اس سے پہلے بھی جب انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے اعلانات ہوئے تھے لوگ کہنے اور سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟ جب آزادی مارچ اور انقلاب مارچوں کی ایک ہی تاریخ یعنی 14 اگست کا باقاعدہ اعلان ہوا تھا لوگ سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟ جب دونوں دھرنے والوں نے ریڈ زون کے اندر داخل ہونے کا عندیہ دیا تھا لوگ سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟ جب دھرنے والوں نے ریڈ زون کے اندر مزید آگے بڑھنے کا اعلان کیا تھا لوگ سوچنے لگ گئے تھے اب کیا ہوگا؟
ان سارے واقعات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ لوگ اس وقت مستقبل کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں جب کوئی انہونی واقعہ ہوتی ہے۔ وہ انہونی جس کا تعلق مسائل کی بیخ کنی سے نہیں بلکہ ان میں اضافے کے خدشات سے وابستہ ہو۔ مثلاً جب پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تو لوگوں نے یہ سوال نہیں کیا کہ اب کیا ہوگا؟جب جنرل مشرف نے بسنت کا تہوار باقاعدہ طور پر منانا شروع کروا دیا تو لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اب کیا ہوگا؟
اس وقت جب پورا ملک یہ سوچ رہا ہے کہ اب کیا ہوگا تو اس کا مطلب بھی صاف ظاہر ہے کہ لوگ محسوس کر رہے ہیںکہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ انھیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ان کا کیا بنے گا۔ لوگ اس وقت جس کرب اور اذیت کا شکار ہیں اور جن مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں چاہے وہ قدرتی ہوں سیاسی ہوں معاشرتی ہوں یا معاشی وہ انھیں سہہ سہہ کر تنگ آچکے ہیں اب ان مصیبتوں اورآزمائشوں کو مزید برداشت کرنے کی ان میں طاقت نہیں رہی لوگ بالکل بے بس ہوچکے ہیں کیونکہ وہ اس وقت بغیر کسی نظام یا انتظام کے جی رہے ہیں جس طرح سے لوگ جی رہے ہیں اسے جینا کہنا بھی سرا سر زیادتی ہے کیونکہ لوگوں کی دل ہلا دینے والی اکثریت کو اس وقت بالکل معلوم نہیں ہے کہ وہ اگر زندہ ہیں تو کیوں ہیں کیسے ہیں اور جینے کی یہ عارضی کیفیت کب تک برقرار رہے گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کیا لوگ غلط سوچ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے ۔ وہ جواب اثبات میں نہیں نفی میں ہے۔ یعنی لوگ غلط نہیں سوچ رہے اس کی وجوہات بھی بالکل معروضی ہیں معروضی صورت حالات حقیقی صورت حالات کو کہتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں بجلی ، گیس کے بلوں، پٹرول کی قیمتوں اور اسکول کالج کی فیسوں نے حرام کر رکھی ہیں مہنگائی نے انھیں ماردیا ہے اُوپر سے سیلاب نے اُن سے ہر وہ چیز یا شئے، سہارا جسے وہ اپنا اثاثہ کہہ سکتے تھے چھین لیا ہے، وہ ا ب سکتے میں آگئے ہیں ان کا کوئی والی وارث نہیں رہا یہ سب کچھ اُس مسحورکن لفظ جمہوریت کے بے دریغ استعمال کا نیتجہ ہے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔