ملالہ: پاکستان کا افتخار

زاہدہ حنا  اتوار 21 ستمبر 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

بلخ سے یہ الم ناک خبر آئی 13 ستمبر کو شمالی نیوز نیٹ ورک سے وابستہ نوجوان خاتون صحافی پلوشہ طورخی چھرے مار کر ہلاک کر دی گئی۔ پلوشہ کا جرم یہ تھا کہ عورت ہونے کے باوجود اس نے اپنا رشتہ قلم سے اور تحریر سے جوڑا تھا۔ وہ سوچتی تھی، لکھتی تھی اور اپنے لوگوں کے مسائل اور مصائب سے دنیا کو آگاہ کرتی تھی۔ افغانستان میں جس عقل و علم دشمن قبیلے کی بہت دنوں سے اجارہ داری ہے، اس نے صرف پلوشہ کو ہی ہلاک نہیں کیا، 2013ء میں اس نے 84 صحافی قتل کیے اور ان کے قتل پر یوں فخر کیا جیسے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔

پلوشہ کے قتل سے چند دن پہلے ہماری بین الاقوامی شہرت یافتہ بچی ملالہ یوسف زئی نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں بوکو حرام کی اغوا کی گئی 200 لڑکیوں کے والدین سے مل رہی تھی اور اس بات کا وعدہ کر رہی تھی کہ وہ ان کی بچیوں کو بوکو حرام کے انتہا پسند رہنمائوں کی وحشیانہ اور ظالمانہ قید سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ یاد رہے کہ بوکو حرام کا مفہوم ہے ’جدید تعلیم گناہ ہے‘ ۔ اس تنظیم سے وابستہ افراد لڑکیوں کے اسکول تباہ کر رہے ہیں، انھیں اغوا کر رہے ہیں اور ان پر شدائد کی انتہا کر رہے ہیں۔

پلوشہ طورخی کے الم ناک قتل کے صرف 5 دن بعد ہمارے یہاں سے ایک اچھی خبر آئی۔ یہ خبر آئی ایس پی آر نے جاری کی اور ہمیں بتایا کہ ملالہ پر قاتلانہ حملے میں ملوث گروہ کے تمام افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ دس افراد پر مشتمل یہ گروہ ملا فضل اﷲ کے احکامات کی تعمیل کرتا تھا اور ’شوریٰ‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ جہاں بری خبریں آتی ہیں، وہیں خوش آیند خبروں کی بھی کمی نہیں۔

ممبئی میں حضیفہ خوراکی والا نے ’دی ورلڈ پیس کیپر موومنٹ‘ کے نام سے ایک امن ایوارڈ قائم کیا ہے جس نے چند دنوں پہلے دلائی لامہ، ملالہ یوسف زئی، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام (سابق صدر ہندوستان) اور جے کے رائو لنگ کو ان کی غیر موجودگی میں امن ایوارڈ دیا ہے۔ وہ لوگ جو اس تقریب میں موجود تھے انھیں یہ ایوارڈ مہاتما گاندھی کے پوتے تشار گاندھی نے دیا اور اس موقع پر امن کے متلاشی 500 نوجوانوں نے باندرہ میں ایک انسانی زنجیر بنائی ۔

سوات میں پیدا ہونے والی ملالہ کا معاملہ اس وقت سے لوگوں کی توجہ کا سبب بن گیا تھا جب 2009ء میں سوات پر انتہا پسندوں نے دھاوا بولا اور اس علاقے پر طالبان کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ متعدد خاندان اپنے آبائی شہر سے نقل مکانی کر گئے۔ جس کو جہاں پناہ ملی، وہ وہاں رہ گیا۔ سب کی آنکھوں میں یہی خواب تھا کہ وہ دن ضرور آئے گا جب وہ لوٹ کر اپنے گھروں کو جائیں گے۔ ملالہ کے باپ نے اس کی تعلیم پر ابتدا سے توجہ دی تھی اور وہ خود بھی بلا کی ذہین تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی ساتھی لڑکیوں سے پڑھنے لکھنے کے معاملے میں بہت آگے تھی۔

اس نے اپنی ٹیڑھی میڑھی تحریر میں ایک ڈائری لکھنی شروع کی۔ ’گل مکئی‘ کے نام سے لکھی جانے والی اس ڈائری کی شہرت کو پر لگ گئے۔ صحافی یہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ انتہا پسند جن کے نام سے اچھے اچھوں کے چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھانے والی یہ کون لڑکی ہے اور کس طرح وہ یہ باتیں لکھ رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ گمان بھی گزرا کہ شاید امن، تعلیم اور سب کے لیے خوشحالی کی آرزو میں کسی کم عمر لڑکی کے نام سے یہ کام کوئی اور کر رہا ہے لیکن آہستہ آہستہ سب ہی جان گئے کہ ’گل مکئی‘ دراصل سوات کی ’ملالہ‘ ہے۔

مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے۔ بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے۔ وہ ملک میں اور ملک سے باہر مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی۔ اسے مختلف اعزازات دیے گئے اور جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کو آئی، اس کی سہیلیاں بھی لوٹ آئی تھیں۔

اسکول پھر سے آباد ہوئے۔ بچوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر سرگودھا تک اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب اس نے ان کی ایک نہ سنی تو اسے اور اس کی ساتھی لڑکیوں کو اسکول سے واپس آتے ہوئے خون میں نہلا دیا گیا۔

ملالہ کی زندگی آج کیا مغرب اور کیا مشرق سب ہی کو معلوم ہے۔ لوگوں کو یہ بھی یاد ہے کہ ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں ہمارے کئی جید علما نے اور سونامی کی طرح آنے اور چھا جانے والے لیڈر نے کیسے کیسے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش نہ کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ خدا جانے یہ واقعی طالبان ہیں بھی یا کچھ لوگ انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کہنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے نہ صرف اس حملے کی ذمے داری فوراً ہی قبول کر لی تھی بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ہمیں جب بھی موقع ملا ہم اسے قتل کر دیں گے۔

ملالہ نے موت کا جس دلیری سے سامنا کیا، وہ اس کے اندر لڑنے کی بے پناہ صلاحیت کا اشارہ ہے۔ اس کو فرسٹ ایڈ مہیا کرنے والے ڈاکٹروں اور اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو داد دینی چاہیے جنھوں نے انتہا پسندوں کے خوف اور دبائو میں آئے بغیر ملالہ کو ممکنہ حد تک بہترین طبی سہولتیں فراہم کیں۔ ایئر ایمبولینس کا اہتمام کیا، اسے متحدہ عرب امارات بھجوایا جہاں سے حکومت برطانیہ نے ملالہ کے دماغ کے نہایت نازک اور پیچیدہ آپریشنوں اور علاج کی ذمے داری اٹھائی۔ ان تمام افراد اور اداروں کی جس قدر بھی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔

اس پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے اس کی حتمی موت کا پروانہ لکھ دیا تھا لیکن وہ موت کے پنجے سے جس طرح نکل کر آئی، وہ یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں۔ آج وہ پاکستان کے لیے باعث افتخار ہے۔ اسے جو اعزازات اور انعامات دیے گئے ان کی فہرست روزانہ طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے ۔ 2013 ء میں وہ نوبل امن انعام کے لیے نامزد کی گئی تھی اور اس سال بھی اس کی نامزدگی کی خبریں ہیں۔ اس نے اقوام متحدہ میں نوجوانوں کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور اپنے ہر جملے پر داد وصول کرتی رہی۔ ابھی جب کہ وہ 17 برس کی ہوئی ہے اسے دنیا کے با اثر ترین نوجوانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

نوجوانوں کی اسی اسمبلی میں اس نے کہا تھا کہ میں دنیا کی ہر بچی اور بچے کے تعلیمی حق کے لیے آواز بلند کرتی رہوں گی۔ میں تمام انتہا پسندوں اور طالبان کی بچیوں اور بچوں کے لیے بھی تعلیم کے حق کی طلب گار ہوں۔ اسی روز اس نے کہا تھا کہ ہم سوات میں تھے اور ہم نے بندوق والوں کو دیکھا تب ہم نے قلم اور کتاب کی طاقت کو جانا اور ہم یہ بھی سمجھ گئے کہ انتہا پسندوں کو تعلیم سے اور خاص طور پر لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم سے کیوں خوف آتا ہے۔

برطانیہ میں اس کا علاج اس اسپتال میں ہوا جہاں دوسری جنگ عظیم کے دوران محاذ جنگ پر شدید زخمی ہونے والے فوجیوں کے آپریشن ہوتے تھے اور ان کا علاج ہوتا تھا۔ ملالہ کی کھوپڑی کا پچھلا حصہ مصنوعی ہے، مہینوں تک اس کی اسپیچ تھراپی ہوتی رہی ہے۔ اس نے شدید جسمانی تکالیف سہی ہیں لیکن دنیا نے بھی اس پر داد و دہش کی بارش کی ہے۔ وہ پاکستان کے لیے مایۂ افتخار ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اس پر قاتلانہ حملے کرنے والے افراد کچھ عرصے سے ان کی تحویل میں تھے۔ اس وقت وہ نامی گرامی پاکستانی یاد آرہے ہیں جو ملالہ پر کیے جانے والے ظلم کو مغرب کا رچایا ہوا ڈراما کہتے رہے۔

اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے اب فوج کی تحویل میں ہیں، موجودہ حکومت کا یہ اولین فرض اور ذمے داری ہے کہ وہ ملالہ کو انصاف فراہم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔