سر اور سنگیت کی ناقابل فراموش ہستیاں

رئیس فاطمہ  اتوار 21 ستمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی نہایت مقبول، معروف اور منفرد غزل گائیکہ اور نذرل گیتی کی بانی فیروزہ بیگم نے مومن کی یہ غزل 1970ء سے پہلے گائی تھی۔ غالباً پی ٹی وی سے۔ اس وقت انھیں کیا معلوم تھا کہ کبھی یہ غزل یوں حقیقت کا روپ دھارے گی کہ ایک ایک شعر ایک شکایت نامہ بن جائے گا۔

نہایت دلکش آواز کی مالک فیروزہ بیگم 9 ستمبر کو وفات پا گئیں۔ اسی سال 19 اپریل 2014ء کو بشیر احمد بھی فن کی یہ دنیا چھوڑ گئے۔ دونوں غزل، گیت اور کلاسیکل گانے میں اپنا جواب نہ رکتے تھے لیکن میرا دل نہیں چاہتا ان دونوں کو بنگلہ دیشی فنکار کہنے کو کیونکہ ان کی پہچان اور شہرت متحدہ پاکستان کی تھی۔ جسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے۔ شبنم، روبن گھوش، رونا لیلیٰ، شہناز بیگم اور فردوسی بیگم ان سب کی شناخت اردو زبان میں بننے والی فلمیں اور گیت ہیں۔ ان تمام گائیک کلاکاروں کا تلفظ اور ادائیگی دیکھئے اور سنیے تو یقین ہی نہیں آئے گا کہ ان سب کی مادری زبان بنگالی ہے کیونکہ فنکار صرف فن سے پیار کرتا ہے اور فن سے ہی مخلص ہوتا ہے۔ جو متعصب ہو وہ فنکار ہو ہی نہیں سکتا۔

یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں جو بھی کام ہوا وہ بہت معیاری اور منفرد تھا۔ فلم کے شعبے میں انھوں نے جو فلمیں بنائیں وہ آرٹ فلموں کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ بڑے ذہین اور قابل لوگ تھے۔ جنھیں ہمارے نام نہاد سیاستدان ’’بھوکے بنگالی‘‘ کہہ کر اپنے احساس کمتری کی نفی کرتے تھے۔ ملن، درشن، کنگن اور ’’نواب سراج الدولہ‘‘ معرکۃآلارا فلمیں ان لوگوں نے اردو زبان ہی میں بنائی تھیں کیونکہ وہ مخلص اور محبت کرنے والے سادہ دل لوگ تھے۔ اور زبانوں کو پیار کے اظہار کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کی گائی ہوئی غزلیں، گیت اور فلمی گانے آج بھی موسیقی کو سمجھنے والے لوگوں کے حافظے میں زندہ ہیں۔

فیروزہ بیگم کو میں نے ہارمونیم کے ساتھ غزل گاتے بھی دیکھا ہے لیکن انھیں سنا زیادہ تر پی ٹی وی سے۔ وہ بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی پاکستان آئی تھیں۔ میرے پاس ان کے گیتوں اور غزلوں کی صرف ایک سی ڈی ہے البتہ میرے والد کے پاس ان کا ایک لانگ پلے ریکارڈ بھی تھا جو بعد میں کسی مہربان نے سننے کے لیے مانگا اور پھر حسب روایت واپس کرنے کی زحمت نہ کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آواز کی جو خوبی اور نکھار HMV کے ریکارڈوں کی ہوتی تھی وہ ٹیپ اور سی ڈی میں ناپید ہے۔ لیکن یہ فرق بھی وہی محسوس کر سکتے ہیں۔ جنھوں نے گراموفون اور ریکارڈ پلیئر سے اپنی پسند کے گیت سنے ہوں۔

فیروزہ بیگم فرید پور میں 28 جولائی 1930ء کو پیدا ہوئیں۔ انھوں نے نہایت چھوٹی عمر میں ’’نذرل گیتی‘‘ گا کر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1942ء میں انھوں نے پہلا گیت گایا۔ قاضی نذرالاسلام فیروزہ بیگم کے استاد ہی نہیں بلکہ مرشد تھے۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ سب سے پہلے ’’نذرل گیتی‘‘ کو انھوں نے سروں میں ڈھالا اور اپنی سحر انگیز آواز میں دنیا بھر میں روشناس کرایا۔

فیروزہ بیگم نے بنگالی زبان میں بے شمار گانے گائے جنھیں بنگلہ زبان سے ناواقف لوگوں نے بھی پسند کیا۔ 70ء کی دہائی میں فیروزہ بیگم نے پی ٹی وی سے مانجھیوں کے گیت بھی بڑی دلکش آواز اور انداز میں سنائے۔ مشرقی پاکستان دریاؤں کا گھر ہے۔ اسی مناسبت سے جب جب فیروزہ بیگم اور فردوس بیگم نے گیت سنائے تو سیدھے دل میں اتر گئے کیونکہ فیروزہ محسوس کر کے گانے والی گلوکارہ تھیں۔ انھوں نے اردو میں بنگالی کی بہ نسبت کم گیت گائے لیکن جو بھی گائے انھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ مثلاً یہ گیت اور غزلیں :

(1) برہن کے گھر بدری برسے

(2) تم بھلائے نہ گئے ہائے بھلائے نہ گئے

یہ گیت نرگس پر فلمایا گیا تھا اور اپنی دلکش اور پرسوز آواز کی بدولت شائقین میں بے حد مقبول بھی ہوا۔

(3) غالب کی غزل…عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی۔

(4)رو رہا ہے دل میرا میں رو کر کیا کروں

(5)کیوں تم سے مجھ کو پیار ہے یہ کیسے بتا دوں

(6) کب تک یہ پریشانی دیکھیں گے معجزہ ہے

1955ء میں فیروزہ بیگم نے بنگالی میوزک ڈائریکٹر، کمپوزر اور فوک آرٹسٹ ڈاکٹر کمل داس گپتا سے شادی کر لی جو بعد میں مسلمان ہو گئے اور ان کا اسلامی نام کمال علی رکھا گیا۔ انھوں نے بنارس یونیورسٹی سے 1943ء میں Ph.d کیا تھا۔ کمل داس گپتا قاضی نذرالاسلام کی اکیڈمی سے وابستہ تھے۔ یہیں فیروزہ بیگم بھی تھیں جن کے گیتوں کی موسیقی ڈاکٹر کمل داس ہی دیتے تھے۔ انھوں نے فیروزہ کے لیے سو سے زائد نذرل گیتی کی دھنیں ترتیب دیں۔ موسیقی اور آواز کے ملن کو امر کیا کیوپڈ نے۔ دونوں کا ایک بیٹا ہے شافین احمد جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔

ایک عجب اتفاق یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی کی تاریخ پیدائش اور مہینہ ایک ہی ہے یعنی کمل داس گپتا بھی 28 جولائی کو پیدا ہوئے اور فیروزہ بیگم نے بھی اسی دن جنم لیا البتہ کمل داس 1912ء میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 20 جولائی 1974ء میں ہوا۔ ان کے کریڈٹ پر آٹھ ہزار سے زیادہ گانے مختلف زبانوں میں موجود ہیں۔ تاہم تمام گانوں کی بنیاد کلاسیکل میوزک ہے یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا میوزک۔ فیروزہ بیگم اپنی مدھر آواز اور سنگیت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ موسیقی کے شائقین بار بار ان کے گیت سنیں گے کہ فنکار کبھی نہیں مرتا۔ پنچھی، ندیا اور پون کے جھونکوں کی طرح فنکار بھی کسی مذہب یا سرحد کے قیدی نہیں ہوتے۔

نہایت دلکش آواز کے مالک گلوکار بشیر احمد کو بھی شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں 1970ء سے پہلے جگہ مل چکی تھی۔ انھوں نے میڈم نور جہاں کے ساتھ بھی ڈوئٹ گائے۔ اداکار رحمن پر ان کی آواز بہت سجتی تھی۔ ملن، بندھن، ساگر، درشن ، ایندھن، کاروان اور ہل اسٹیشن نامی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ بشیر احمد بلاشبہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا گریٹ سنگر تھا۔ بڑے بڑے دلکش گیت ان کی آواز میں موجود ہیں۔ خاص کر ۔۔۔کچھ اپنی کہیے کچھ میری سنیے۔۔۔۔ اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد دوسرے بنگالی فنکاروں کی طرح وہ بھی واپس چلے گئے۔ وہ نہ صرف گلوکار بلکہ نغمہ نگار اور شاعر بھی تھے۔ ان کا فنی سفر 1960ء میں شروع ہوا اور 2014ء میں ختم ہوا۔ بشیر احمد 18 نومبر 1939ء کلکتہ میں پیدا ہوئے اور 19 اپریل 2014ء میں ڈھاکہ میں وفات پائی۔

بشیر احمد کے گیتوں کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن چند ناقابل فراموش اور مقبولیت کے لحاظ سے چند گیت یہ بھی ہیں:

(1)گلشن میں بہاروں میں تو ہے

(2)وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں

(3) چل دیے وہ جو دل توڑ کر

(4) یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو

(5) ہم چلے چھوڑ کر تیری دنیا مگر

بشیر احمد بھی بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں چلے گئے۔ لیکن ان کو شہرت اردو فلموں کے گیتوں سے ہی ملی۔

مجھے افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ بشیر احمد کی وفات کی خبر سوشل میڈیا پہ تو لگی۔ فیروزہ بیگم کے انتقال کے تین دن بعد مجھے پتا چلا تو لوگوں کو بھی آگاہ کیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی آرٹس کونسل اور الحمرا آرٹس کونسل لاہور والے بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں۔ بیرون ملک سے بھی ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو بلاتے ہیں لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی اپنے سابقہ وطن اور موجودہ بنگلہ دیش سے کسی فنکار کو بلایا گیا ہو۔ کیا شہناز بیگم، رونا لیلیٰ اور فردوسی بیگم کو بھی کسی محفل کا دعوت نامہ بھیجا جاتا۔ بھلا کیوں بھیجا جاتا اور انھیں بلایا جاتا۔

یہاں تو سارا کاروبار حیات سفارشی بنیادوں پہ چل رہا ہے۔ جتھے اور قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں۔ جن کے مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں اسی لیے ہمیشہ پارٹی اور سیاسی بنیادوں پر ہی لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور پھر ایک پریشر گروپ وہ بھی ہے جو مہمانوں کے ناموں کی منظوری دیتا ہے لیکن یہ پریشر گروپ وہ ہے جو نہایت متعصب اور مطلب پرست ہے۔ مسلکی، علاقائی اور لسانی بنیادوں پر جنھیں بلایا جاتا ہے۔ وہ بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں۔ ایسے میں بنگلہ دیشی فنکاروں کو کون یاد رکھے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔