برداشت کا کلچر

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 22 ستمبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

مولانا رومی کا نام اسلامی دنیا میں نہایت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے، ان کی احکامات کا بھی ایک اپنا مقام ہے، ان کی ایک حکایت اس وقت میرے ذہن میں آرہی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک بزرگ اپنے علم و کمال کے سبب بہت مشہور ہوئے۔ ان سے ملنے کے لیے ایک شخص کسی دوسرے شہر سے آیا۔ کافی تلاش کے بعد وہ شخص بزرگ کے گھر پہنچ گیا، دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ان بزرگ کی بیوی نے پوچھا کہ کون ہے؟ اس شخص نے ساری بات بیان کردی تو بزرگ کی بیوی نے اس شخص سے کہا کہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، میرا شوہر تو کسی قابل نہیں، نہایت غلط کردار کا حامل ہے۔

آپ نے بلاوجہ اتنا سفر کرکے یہاں پہنچ کر اپنا وقت برباد کیا۔ یہ بات سن کر اس شخص کو بڑی حیرانی ہوئی اور وہ اس عورت کی بدزبانی پر بھی سخت حیران ہوا۔ خیر وہ شخص ہمت نہ ہارا اور ان بزرگ کو تلاش کرتے کرتے جنگل میں جا نکلا۔ اس شخص نے دیکھا کہ جنگل میں وہ بزرگ شیر پر سوار ہوکر آرہے ہیں۔ یہ شخص پھر بہت حیران ہوا اور ان بزرگ سے کہنے لگا کہ آپ کی بیوی تو بڑی بد زبان ہے اور آپ کے بارے میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی اور آپ یہاں شیر پر سواری کررہے ہیں، شیر آپ کے تابع ہے، بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اس پر بزرگ نے جواب دیا کہ میں ایسی بدزبان بیوی کو برداشت کررہا ہوں اس کے ساتھ گزارا کررہا ہوں تبھی تو شیر کو بھی قابو کرلیا اور یہ مقام حاصل کرلیا۔

مولانا روم کی اس حکایت میں ہمارے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا پیغام پنہاں ہے جو ہمارے معاشرے کے اس وقت سب سے اہم مسئلے کا حل بھی ہے اور وہ ہے ’’عدم برداشت‘‘۔ آج ہمارے معاشرے میں گھریلو ساس بہو کے جھگڑوں سے لے کر قتل و غارت کے واقعات کے پس پردہ یہی عدم برداشت ہے۔ آج ہم رشتوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، سیاسی و مذہبی نظریات کے فرق کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، ابھی چند روز پہلے ہی کراچی شہر میں جمعرات کو ٹارگٹ کلنگ میں صرف عام آدمی ہی نہیں پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج (جو درجن بھر کتابوں کے مصنف تھے اور حال ہی میں جنھوں نے وکالت کی ڈگری اور تمغہ امتیاز حاصل کیا) جیسے شخص کو بھی قتل کردیا گیا۔

ایک وقت تھا کہ جب اخبارات میں کبھی کبھار وحشیانہ قتل کی کوئی خبر پڑھنے کو ملتی تھی، انسانیت سوز واقعات صرف دیہی علاقوں میں ہی رونما ہوا کرتے تھے کیوں کہ ایک تو ان علاقوں میں طاقت کا توازن چوہدریوں اور وڈیروں جسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا دوسرے دینی اور دنیاوی تعلیم بھی کم ہوتی تھی۔ مگر اب یہ صورت حال ہمارے پورے معاشرے میں سرائیت کرچکی ہے، اب صرف چولہا پھٹنے سے بہو جل کر ہلاک نہیں ہوتی بلکہ سیالکوٹ جیسے شہر میں بھی سڑکوں پر سرعام مخالفین کو مار مار کر قتل کردیا جاتا ہے، مختلف جماعتوں کے جلوس منفی ردعمل پر اتر آئیں تو مذہبی عمارتوں کی چار دیواری میں گھس کر انسانوں کو قتل کردیتے ہیں۔یہ سب کچھ کون کررہے ہیں؟ یہ عدم برداشت کن لوگوں میں ہے؟

ان لوگوں میں جو اس دین کے پیروکار ہیں جس میں سب سے زیادہ صبر و تحمل اور برداشت تھی، جو عام معاشرتی زندگی میں ہی نہیں جنگوں کے دوران بھی اس کا عملی مظاہرہ کرتے تھے۔ تاریخ پر نظر تو ڈالیے آپ رحمت اللعالمینؐ نے آٹھ سال کی مدت میں 27 جہادی لشکر اپنے ساتھیوں کی سرکردگی میں روانہ کیے، ہر 35 دن بعد کسی نہ کسی دشمن کی طرف سے کوئی نہ کوئی جنگی مہم درپیش ہوتی تھی۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اس سارے عمل میں خوب قتل و غارت ہوئی ہوگی لیکن مورخین کہتے ہیں کہ اس سب جنگ و جدل میں صرف 918 انسان کام آئے۔ 82 جنگوں میں صرف 918 کی زندگیاں ختم ہوئیں اور اسلامی انقلاب، ایک تاریخی انقلاب برپا ہوا۔ آج کے دور میں یہ تعداد کسی ملک کے اندر ہونے والی خانہ جنگی سے بھی کہیں کم نظر آتی ہے۔ عظیم جنگوں کی بات تو بہت دور کی ہے۔

اس اسلامی انقلاب میں ہلاکتوں کی تعداد اتنی کم کیوں؟ وجہ صرف وہی ہے جو اسلام نے صبر و تحمل اور برداشت کا درس دیا ہے مثلاً ایک صحابی مخالف دشمن کو زمین پر گرا دیتے ہیں اور قریب تھا کہ دشمن کے اوپر آخری وار کرکے اسے ختم کردیتے کہ دشمن شخص ان صحابی پر تھوک دیتا ہے جس کے بعد وہ صحابی بجائے دشمن کو قتل کرنے کے چھوڑ دیتے ہیں اور جب وہ دشمن پوچھتا ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ تو صحابی جواب دیتے ہیں کہ یہ عمل اس لیے کیا کیوں کہ تھوکنے کے بعد اگر قتل کرتے تو اس میں ان کی ذاتی خلش اور غصہ شامل ہوجاتا جب کہ وہ صرف اﷲ کے نام پر جہاد کررہے تھے۔

یہ صرف اصول اور اخلاقیات کی اعلیٰ مثال نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اس صبر و تحمل اور برداشت کی بات ہے کہ جس میں دشمن کو قتل کرنے کی پوری قدرت اور صلاحیت تھی مگر مظاہرہ صبر و تحمل و برداشت کا کیا گیا۔ بس یہی وہ صبر و تحمل اور برداشت کا وہ اعلیٰ نمونہ اسلام نے پیش کیا ہے جس کے سبب اس اسلامی انقلاب میں جس میں 82 جنگیں ہوئی، ہلاکتیں لاکھوں کی تعداد میں نہیں ہوئیں بلکہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کرتے چلے گئے اور اسلام پھیلتا چلا گیا۔

برداشت کے مظاہر اسلامی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں، کہیں جنگ کے میدان میں کسی زخمی کو پانی پلانے کے لیے پیالہ دیا جاتا ہے تو وہ زخمی کسی دوسرے زخمی کی آواز سن کر خود پانی نہیں پیتا بلکہ دوسرے کو پانی پلانے کے لیے کہتا ہے اور جب دوسرے کو پانی پیش کیا جاتا ہے تو وہ کسی اور زخمی کی پکار کو سن کر خود پانی نہیں پیتا بلکہ پکارنے والے زخمی کو پانی پہلے پلانے کے لیے کہتا ہے۔

یہ سلسلہ آگے چلتا ہے اور یوں یہ تمام زخمی دم توڑ جاتے ہیں مگر کوئی ایک بھی پانی نہیں پیتا اور کہیں کوئی میزبان مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے چراغ کو بہانے سے گل کردیتا ہے کہ کھانا گھر والوں کے لیے ہی نہیں صرف مہمان کے لیے ہے، یہ بات کہیں مہمان کو نہ پتہ چل جائے اور وہ کھانا کھانے سے انکار کردے۔آخر یہ صبر و تحمل اور برداشت ہمارے معاشرے میں کہاں سے آئے گا؟ کون سی سیاسی حکومت لائے گی؟ کون سی فوجی ڈکٹیٹر شپ لائے گی؟ کون سی جماعتیں یہ انقلاب لائیںگی؟

کوئی بھی معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، انفرادی رویہ ہی معاشرے کا عکس ہوتا ہے، اسلامی تاریخ میں مسلم معاشرے کے ہر فرد نے انفرادی کردار کے ذریعے صبر و تحمل، برداشت اور رواداری کا مظاہرہ، کسی خلیفہ نے ڈنڈے کے حکم سے معاشرے میں برداشت کی کیفیت نافذ نہیں کی، یہ ہماری اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔

ہمارے ایک دوست نہایت خوش مزاج اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں ہر وقت خوش خرم نظر آتے ہیں، ایک روز میں نے ان سے اس حقیقت کا راز جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایاکہ ایک روز انھوں نے سورہ آل عمران کی چند آیات کا ترجمہ پڑھا جس کا مفہوم تھا کہ جو لوگ دوسرے لوگوں کو معاف کردیتے ہیں اور غصے پر قابو پالیتے ہیں، اﷲ تعالیٰ انھیں اپنا دوست بنالیتا ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے بعد سے انھوں نے اپنے تمام مخالفین کو معاف کردیا، بدلہ لینے کا خیال دل سے نکال دیا، بس اس کے بعد سے شخصیت میں ٹھہرائو اور سکون آگیا۔

کاش ہم بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے کا عمل شروع کردیں تاکہ معاشر ے میں ایک بار پھر برداشت کا اسلامی کلچر زندہ ہوجائے، یہ سودا مہنگا نہیں ہے کیوں کہ جس کا دوست اﷲ تعالیٰ بن جائے تو پھر اس کو کسی سے بدلہ لینے کی ضرورت رہتی ہے نہ کسی چیز کا غم، آیئے صرف ایک منٹ غور کریں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔