ڈاکٹرز گھر بیٹھ رہی ہیں!

بینش صدیقہ  پير 22 ستمبر 2014
اس مسئلے کو صنفی امتیاز سے بالاتر ہو کر زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔۔۔ فوٹو؛ فائل

اس مسئلے کو صنفی امتیاز سے بالاتر ہو کر زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔۔۔ فوٹو؛ فائل

آج شائستہ بے حد خوش تھی۔۔۔ اور کیوں نہ ہوتی، اس کے ڈاکٹر بننے کا خواب جو پورا ہونے کو تھا۔ ڈاکٹر بننے کی دھن میں شائستہ تو جیسے دنیا و مافیہا سے ہی بے خبر تھی۔

کالج لائف کی رنگینیوں۔ موج مستیوں کی طرف اس نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا اور تو اور اپنی تعلیم کی دھن میں خوشی اور غمی کے کسی موقع کو خاطر میں نہیں لائی۔ اسی بنا پر وہ دوستوں میں افلاطون اور خاندان میں ’’نک چڑھی‘‘ مشہور ہو چکی تھی۔ اب شہر کے بہترین میڈیکل کالج مین داخلے نے شائستہ کو  ہر ایک کی نظر میں جیسے معتبر کر دیا تھا۔ مستقبل کی ڈاکٹر صاحبہ کی خوشی بھی  چھپائے نہیں چھپتی تھی، جب ہی تو وہ آج  بڑے تپاک سے  خاندان بھر کی مبارک بادیں قبول کر رہی تھی۔

شائستہ کے والدین بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، ان کی نظر میں  میڈیکل کالج میں داخلے نے ان کی بیٹی کا مستقبل گویا محفوظ کر دیا تھا، کیوں کہ میڈیکل کی تعلیم کچھ دے یا نہیں، اچھے رشتے کی ضامن تو ضرور بن جاتی ہے۔ شائستہ کا داؒخلہ تو میڈیکل کالج میں ہوا تھا، لیکن لگتا ایسا تھا کہ جیسے میرج بیورو میں رجسٹریشن کرا دیا گیا ہو۔ خاندان اور جاننے والوں نے شائستہ کا ہاتھ مانگنا شروع کر دیا، لیکن والدین کی نظروں میں اپنی قابل بیٹی کے لیے کوئی سجتا ہی نہ تھا۔ میڈیکل کے تیسرے سال بالآخر یہ نیّا بھی پار لگی اور آسٹریلیا میں رہائش پذیر قابل انجینئر کے ساتھ فوری نکاح اور تعلیم مکمل ہوتے ہی شائستہ کی  رخصتی کر دی گئی۔ اپنی زندگی میں مگن شوہر اور بچوں کے ساتھ مصروف شائستہ کو اب بھولے سے بھی میڈیکل کی ڈگری کا خیال نہیں آتا۔

یہ ایک شائستہ نہیں نہ جانے کتنی ایسی لڑکیاں ہیں، جنہوں نے میڈیکل کے شعبے میں داخلہ لیا اور پھر اپنے گھر کی ایسی ہوئیں کہ یہ ڈگری ہمیشہ کے لیے طاق نسیاں میں رکھ دی گئی۔ ایک عام اندازے کے مطابق پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی 65 سے 70 فی صد خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر بیٹھ جاتی ہیں، یعنی واضح طور پر طب جیسے اہم شعبے کی قیمتی نشستیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ دیگر شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین اگر ایسا کریں تو شاید کچھ گنجایش نکل آئے، لیکن میڈیکل کی تعلیم کے بعد خواتین کا گھر بیٹھنا اور اسے عمدہ رشتے کے حصول کا ذریعہ سمجھنا  یقینا بہت زیادہ غیر مناسب اور قابل فکر فعل ہے۔ اس سے براہ راست صحت کی ناکافی سہولیات مزید سکڑتی چلی جا رہی ہیں۔

1990ء کی دہائی تک  تک میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے لڑکیوں اور لڑکوں کی نشستوں کا  کوٹا مقرر تھا، جس کے مطابق میڈیکل کالجز کی 80 فی صد نشستیں لڑکوں کے لیے اور 20 فی صد لڑکیوں کے لیے مختص تھیں۔ اس کوٹے کے خلاف حقوق کی نسوں کی عَلم بردار غیر سرکاری تنظیموں نے احتجاج شروع کیا اور سپریم کورٹ کے  اوپن میرٹ کے فیصلے کے بعد ذہین اور قابل طالبات نے اکثر میڈیکل کالجوں میں لڑکوں کو پچھاڑ کر اپنی حاکمیت قائم کرلی، مگر دوسری طرف تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹری کا یہ پیشہ اختیار نہ کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

اس مسئلے کو صنفی امتیاز سے بالاتر ہو کر زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔ میڈیکل کی ڈگری کو محض رشتوں کے حصول کا ذریعہ بنانا نہایت غلط ہے۔ یہ کیا طریقہ ہوا کہ محض رشتے کے حصول کے لیے حکومتی سرمائے کو داؤ پر کیوں لگایا جائے۔

ایک عام اندازے کے مطابق مطابق  ایک ڈاکٹر پر تقریبا 12 لاکھ  روپے سرکاری خرچہ آتا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام اخراجات ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ خواتین کو عمدہ رشتہ دلانے کی نیت سے نہیں، جب کہ خواتین ڈاکٹرز شادی کرتے ہی گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہیں، تو  مرد ڈاکٹرز کم تنخواہوں اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث جلد از جلد بیرون ملک روانہ ہونے میں عافیت جانتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق ہر سال 15 ہزار ڈاکٹرز بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں۔

جہاں مشاہرہ بھی اعلا اور جان کا تحفظ بھی ہوتا ہے، کیوں کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں ملک بھر میں 130 ڈاکٹروں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ جس کے بعد ڈاکٹروں کی جانب سے ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ہو گیا ہے، جب کہ یہاں تقریبا 10ہزار افراد کو صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر فاروق کہتے ہیں دنیا بھر میں ڈاکٹرز کے داخلے کی میڈیکل پالیسی، وہاں کی ضروریات پر استوار ہوتی ہے۔ یعنی ملک کو جس شعبے میں جتنے ڈاکٹرز کی ضرورت ہو اسی کے تحت داخلے دیے جاتے ہیں، لیکن چند برسوں سے سرکاری اخراجات پر ڈاکٹر بننے والی لڑکیاں ملکی ضروریات کو پورا نہیں کر رہیں، جس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اوپن میرٹ کا فیصلہ چوں کہ عدالت عظمیٰ سے آیا ، شاید اسی لیے اس پر ابھی تک نظرثانی کی بات نہیں کی جاتی۔

دو سال قبل پنجاب اسمبلی میں اس وقت کے صحت کے پارلیمانی سیکریٹری ڈاکٹر سعید الٰہی نے اعداد و شمار پیش کیے، جس کے مطابق میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل 70 فی صد خواتین ڈاکٹرز گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اس حوالے سے سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی تجویز پیش کی، جس پر حزب اختلاف کی ایک خاتون رکن نے اسے حقوق نسواں کے خلاف قرار دیتے ہوئے، مرد ڈاکٹروں کی بیرون ملک روانگی پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کردی۔

سندھ اور بلوچستان میں تو میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے، لیکن اس حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ شاید اسے حقوق نسواں کے خلاف سمجھا جائے گا، لیکن درحقیقت  یہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ صحت کی ناکافی سہولیات میں مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی مناسب قانون سازی کی جائے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اپنی اولاد کو محض ڈاکٹر کی ڈگری تک محدود نہ کریں، بلکہ اسے اس ڈگری سے جڑی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کریں۔

انہیں بتائیں کہ وہ میڈیکل کی ایک نشست نہیں، بلکہ بہت بڑی ذمہ داری اٹھانے جا رہی ہیں۔ اگر اس ذمہ داری کو سمجھ لیا گیا، تو صورت حال میں  بڑی حد تک بہتری ہو سکتی ہے۔ اگر والدین اور اساتذہ یہ شعور اجاگر کرنے میں کام یاب ہوگئے کہ صرف وہی لڑکیاں اس ذمہ دارانہ شعبے کا رخ کریں، جو مستقبل میں اس پیشے کو اختیار کرنے میں سنجیدہ ہوں اور اس شعبے کی سختیوں کو بھی جھیل سکیں۔ یہ ایک سماجی فریضہ ہے، جس سے انحراف کرنا کسی جرم سے کم نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔