(پاکستان ایک نظر میں) - کرامت کے منتظر لوگ

شاہد اقبال  پير 22 ستمبر 2014
اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نیاز علی کی طرح لایعنی کرامات کے لالچ میں آئندہ بھی اسی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔ فوٹو فائل

اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نیاز علی کی طرح لایعنی کرامات کے لالچ میں آئندہ بھی اسی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔ فوٹو فائل

ابھی ہم پی آئی اے کے طیارے سے رحمان ملک اور رمیش کمار کے بے آبرو ہو کر نکلنے کی خوشی میں بغلیں بجا ہی رہے تھے اور ایک دوسرے کو تبدیلی کی نویدیں سنا سنا کرلوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ نئے پاکستان کے اس خوش کن منظر کو پرانے پاکستان کے ایک کریہہ نظارے نے دھندلا کر رکھ دیا۔ مظفر گڑھ کے ایک گاؤں مبارک آباد میں ایک پیر صابر علی نے اپنے مرید نیاز علی کو حیات بعد از مرگ کی کرامت دکھانے کے لئے اپنے آستانے پر بلا کر ذبح کر دیا اور نعرے لگاتے ہوئے اس کی لاش پر دیوانہ وار بھنگڑے ڈال کر ایٹمی پاکستان کی تہذیب و ترقی کے راز طشت ازبام کرتا رہا ۔ اس کی اس ’کرامت ‘ کو گاؤں والوں نے اردگر د کے مکانوں کی چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کرلائیو دیکھا اور منتظر رہے کہ کب مردے کو پیر صاحب زندہ کریں گے لیکن جب پیر صاحب اپنی کرامت مکمل کئے بغیر وہاں سے کھسکنے لگے تو کھلبلی مچی ۔ پیرِ صاحب کی کرامت کے اس ناکام مظاہرے پر اگرچہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے کے مونہہ پر ایک نہایت ہی زوردار طمانچہ ہے۔ہم چونکہ ازل سے طمانچے کھانے کے عادی ہیں اس لیے اس واقعے کا بھی ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ہم حسبِ معمول باقی دنیا کو جاہل اور بدتہذیب جبکہ خود کو روایا ت کا واحد وارث، امین اور ٹھیکیدار سمجھتے رہیں گے۔ 

یہ اور اسی قبیل کے دوسرے واقعات آئے روز ہمارے دیس کی گلیوں گاؤں اور گوٹھوں میں اپنا بھیانک روپ دکھا کر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تبدیلی اس ملک کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے لیکن ہم بے عملی کی چادر اوڑھے کسی کرامت کے منتظر ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آسمان سے ہمارے لئے تبدیلی اترے گی اور ہم اسے گلے لگا کر جھومنے لگیں گے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے ہماری کایا پلٹ جائے گی اور ہم ککھ پتی سے لکھ پتی بن جائیں گے، ایک دن ہماری آنکھ کھلے گی تو دنیا بدل چکی ہو گی اور ہم ترقی کے جھولے جھول رہے ہوں گے۔ ہم انہونیوں پر اپنی ذات سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے گاؤں دیہات کے صابر علی جیسے پیروں سے لے کر قومی سطح کے سیاسی و مذہبی لیڈروں تک میں سے ہر ایک کے ہاتھوں الو بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ہم ہر موڑ پر بے وقوف بننے کے لیے دل و جان سے راضی ہوتے ہیں بس ہمیں کسی ایسے سیانے کی تلاش رہتی ہے جو کسی نئی تیکنیک سے کسی نئے ڈھنگ یا ڈھونگ سے ہمیں بے وقوف بنا سکے ۔

مبینہ طور پر نیاز علی کی بیٹی پر آسیب کا سایہ تھا۔ پیر صاحب نے اس کا یہ مسئلہ حل کر کے نیاز علی کو اتنا گرویدہ کر لیا تھا کہ جب عین کرامت کے موقع پر اسے ذبح ہونے کے لیے زمین پر لیٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ بخوشی سر زمین پر رکھ اپنے پیر کی کرامت کا ایک کردار بن گیا۔ ہمارے سیاسی رہنما بھی صابر علی کے طریقہ واردات کے پیر و ہیں۔ یہ پہلے کسی چھوٹی موٹی ’کرامت‘ سے ہمیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں پھر ہماری کھال تک اتار کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی نئی کھال ملنے کی آس میں ان کی اس کرامت کے ہونق کردار بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ہمیں محلوں کے سبز باغ دکھا کر ہم سے ہمارے جھونپڑے تک چھین کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی احمقوں کی جنت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ پلک جھپکنے میں ہمارے سارے مسائل حل کر دیں گے، ہماری ساری پریشانیاں دور کر دیں، ساری مصیبتیں بھگا دیں گے اور ازل سے چمٹے ہوئے ہمارے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدل دیں گے ۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے پاس الہٰ دین کا ایسا چراغ ہے کہ بس ان کے اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بدل جائے گا اور ہم آنکھیں بند کر کے ان کے ان تمام دعووں پر ایمان لاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ان جعلی مسیحاؤں کے ہاتھوں روز ذبح ہوکر دنیا کے لئے نشانِ عبرت بنتے ہیں ۔

تجربے نے ثابت کیا ہے کہ قومیں اسلحوں کے انبار لگانے سے مہذب اور ترقی یافتہ نہیں ہو جایا کرتیں ۔اگر ایٹم بم کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی گارنٹی ہوتا توآج بھارت میں سات سو دیہاتی ایک بندر کے مرنے پر گنجے ہو کر نہ بیٹھے ہوتے۔ سماج کی سوچ میں ترقی ہی اصل ترقی ہے۔ افرادِ معاشرہ کی شعوری سطح جب تک پیروں کی کرامتوں کے چکر سے بلندنہیں ہوتی ترقی کے زینے پر قدم نہیں رکھا جا سکتا۔ فضول رسومات اور لایعنی توہمات کی زنجیریں توڑے بغیر مہذب ہونے کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اسے عملی تعبیر نہیں دی جا سکتی۔ ہم مغرب سے مقابلہ کرنے کی بھڑکیں مارتے ہیں جبکہ حالت ہماری یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم بیماریوں سے شفا پانے کے لئے پیروں کی چوکھٹوں کے محتاج ہیں، بچے پیدا کرنے کے لیے ہماری عورتیں ابھی تک تعویذوں گنڈوں اور پیروں کے آسرے پر بیٹھی ہیں اور دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کے ہم ابھی تک جادو ٹونے کے چکر میں خوار رہے ہیں۔

ہمیں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ایک ایسی تبدیلی کی جو ہمیں زمانہ جاہلیت میں بھٹکنے والی روحوں کی بجائے جیتے جاگتے مہذب انسان بنا دے ۔ لیکن یہ تبدیلی صرف اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ ہر فرد کے دل کے نہاں خانوں میں بپا ہونے سے آئے گی ۔ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم فراڈ اور دغابازی سے کام لیتی رہے لیکن ہمارے حکمراں ایماندار ہوں ، ہمارا خیال ہے کہ ہم سب جھوٹ بولتے رہیں اور ہمارے حکمراں صادق اور امیں سے کمتر نہ ہوں ، ہم سب کرپشن کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر اس عارضے میں بالکل مبتلا نہ ہوں، ہم میں سے ہر فرد محلوں میں رہنے کے خواب دیکھتا ہے لیکن لیڈر ایسے چاہتا ہے جو عمرؓ کی طرح پیوند لگے کپڑے پہنے اور سڑکوں پر سوئے۔ تبدیلی کا عمل ہر فرد کو خود سے شروع کرنا ہو گا۔ کنٹینروں سے حکومتیں بدلی جا سکتی ہیں لیکن دل کی دنیا بدلنے کے لئے ہمیں خود کو بدلنا ہو گا ۔اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نیاز علی کی طرح جھوٹی تبدیلیوں اور لایعنی کرامات کے لالچ میں آئندہ بھی  ذبح ہوتے رہیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔