پاک فوج کے دلیر جوانوں نے وطن دشمن طالبان کو تتر بتر کر ڈالا

سید عاصم محمود  ہفتہ 27 ستمبر 2014
غیر ملکی طاقتوں کی عیارانہ سازشوں کا چشم کشا قصّہ۔ فوٹو: فائل

غیر ملکی طاقتوں کی عیارانہ سازشوں کا چشم کشا قصّہ۔ فوٹو: فائل

یہ 5 اکتوبر 2013ء کی بات ہے، کابل میں تعینات سینئر امریکی جرنیلوں کو اطلاع ملی کہ تحریک طالبان پاکستان کا نائب امیر، لطیف محسود ایک قافلے میں شامل ہوکر افغان دارالحکومت آرہا ہے۔ امریکی جرنیلوں کے احکامات پر خصوصی فورس نے خوست کے قریب محو ِسفر قافلے پر چھاپا مارا اور لطیف محسود کو گرفتار کرلیا۔

لطیف محسود تحریک طالبان پاکستان کے مقتول امیر، حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی ہے۔ جب وہ ڈرون حملے میں ہلاک ہوا، تو لطیف محسود کو تحریک کا نائب امیر بنادیا گیا۔ جب گرفتار رہنما سے پوچھ گچھ ہوئی تو انکشاف ہوا کہ وہ افغان انٹیلی ایجنسی، این ڈی ایس (National Directorate of Security) کے سربراہ سے ملنے جا رہا تھا۔

مزید تفتیش سے افشا ہوا کہ این ڈی ایس تحریک طالبان پاکستان کو سرمایہ اور اسلحہ فراہم کررہی ہے تاکہ وہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھ سکے…یوں یہ ٹھوس ثبوت سامنے آگیا کہ ریاستِ پاکستان سے برسر پیکار جنگجو گروہوں کو افغان حکومت کی مادی حمایت حاصل ہے۔اور اس حمایت میں بھارتی حکومت کا بھی حصّہ ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ پاک فوج کے خلاف افغان سازش عیاں ہونے کے بعد صدر حامد کرزئی کے ترجمان، ایمل فیضی نے اعتراف کیا ’’این ڈی ایس تحریک طالبان پاکستان کو طویل عرصے سے امداد فراہم کررہی ہے۔‘‘ موصوف نے اس غیر قانونی و اخلاقی اقدام کی وجہ یہ بتائی کہ پاک فوج بھی افغان طالبان کو سرمایہ اور ہتھیار فراہم کرتی ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد 2004ء میں ان قبائلی رہنماؤں نے رکھی تھی جن کے پیروکار افغانستان میں امریکی فوج سے نبردآزما تھے۔آہستہ آہستہ یہ پاکستانی حکومت سے صف آرا مختلف تنظیموں کا اتحاد بن گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ اتحاد مملکت ِپاکستان کے خلاف ہی تشدد آمیز سرگرمیاں انجام دینے لگا۔ جواز یہ بنایا گیا کہ پاکستانی حکومت امریکا کی پٹھو ہے۔ لیکن تنظیم کے جنگجوؤں نے سرکاری تنصیبات کے علاوہ کئی واقعات میں پاکستانی شہریوں کو بھی بم دہماکوں اور خود کش حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں کی وجہ سے ہزارہا معصوم پاکستانی شہید ہوئے اور مملکت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس اتحاد کے رہنماؤں نے دعوی کیا کہ پاکستان میں کرپٹ سیاسی و انتظامی نظام مروج ہے۔ لہذا وہ اس کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف پہ مبنی اسلامی نظام حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ دعوت و تبلیغ کی سنت ِنبویﷺ پہ عمل پیرا ہونے کے بجائے گولی کی طاقت پر اپنی بات منوانے لگے۔ اسی غیر اسلامی روش نے کئی پاکستانیوں کو یہ احساس دلایا کہ تحریک طالبان پاکستان میں شامل بعض تنظیمیں غیر ملکی طاقتوں کی آلہ کار بن چکیں۔ اور ان کا مقصد خدانخواستہ پاکستان کی شکست و ریخت ہے۔

مثال کے طور پہ حال ہی میں یہ انکشاف ہواکہ خیبر ایجنسی میں پاکستان مخالف جنگجو، منگل باغ کو بھی افغان حکومت ہی نے اسلحہ اور سرمایہ فراہم کیا۔ منگل باغ باڑا سے تعلق رکھنے والا ڈرائیور تھا جو بعدازاں جنگجو مذہبی رہنما، مفتی منیر شاکر کا مرید بن گیا۔ یہ بھی افغان حکومت کا ایجنٹ تھا۔ دونوں نے افغان سرمائے کے بل بوتے پر 2004ء میں اپنی تنظیم، لشکر اسلام کی بنیاد رکھی۔

یہ تنظیم اب تحریک طالبان پاکستان کا حصّہ ہے۔ تنظیم کے جنگجو پشاور سے جلال آباد جانے والے امریکی و نیٹو ٹرکوں پر لدا سامان لوٹنے لگے۔ اس سامان میں جنگی گاڑیاں، کاروں سمیت امریکی و نیٹو فوجیوں کے لیے بھجوائی جانے والی قیمتی اشیا شامل ہوتیں۔ چناں چہ پشاور۔ جلال آباد شاہراہ پر قافلے لوٹنا بڑا بامنافع کاروبار بن گیا۔

یہ شاہراہ کنٹرول کرنے کے لیے لشکر اسلام، تحریک طالبان پاکستان کی دیگر تنظیموں اور افغان طالبان کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں۔ 2008ء میں منگل باغ کوشش کرنے لگا کہ اپنے مخصوص نظریات پر مبنی شریعت پشاور میں نافذ کردے۔ یہ دھونس و زبردستی دکھلانے پر پاک فوج حرکت میں آگئی۔ تب سے خیبر ایجنسی و ملحقہ علاقوں میں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور منگل باغ کے جنگجوؤں میں لڑائی جاری ہے۔ اس جنگ میں اب تک فریقین کے 1500 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے۔

پاک فوج کی دسترس سے بھاگ کر منگل باغ نے اپنا ہیڈکوارٹر وادی تیراہ میں بنا لیا جو افغان صوبے، ننگرہار کے ساتھ واقع ہے۔ اپریل 2013ء میں پاک فوج نے وہاں بھی زور دار حملہ کیا۔ چناں چہ منگل باغ فرار ہو کر افغانستان چلا گیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق وہ صوبہ ننگرہار کے ضلع نازیان میں چھپا بیٹھا ہے۔ افغان حکومت اس کی مکمل حمایت کررہی ہے اور وہ آج بھی افغان حکومت کی مدد سے پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔

سوات کا ملا ریڈیو، فضل اللہ بھی این ڈی ایس اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی، ’’را‘‘ کی تخلیق ہے۔ ان دونوں ایجنسیوں نے افغان صوبے، کنٹر میں تربیتی کیمپ قائم کیے۔ وہیں فضل اللہ کے جنگجوؤں کو عسکری تربیت دی گئی اور اسلحہ بھی فراہم کیا گیا۔ اسی امداد کے بل بوتے پہ فضل اللہ نے سوات میں اپنا راج قائم کر لیا۔

جب پاک فوج نے 2009ء میں سوات کا کنٹرول سنبھالا، تو فضل اللہ افغانستان فرار ہوگیا۔ تب سے وہ صوبہ کنٹر میں مقیم ہے۔ وہاں وہ بادشاہوں کی طرح رہتا اور این ڈی اے و را کی مدد سے پاکستان میں اپنے تنخواہ دار کارندوں کے ذریعے حکومت و شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کراتا ہے۔

افغانستان، بھارت اور دیگر پاکستان دشمن عالمی طاقتوں کے ٹکروں پہ پلنے والے اسی قسم کے غداروں نے سیکڑوں محب وطن قبائلی رہنماؤں کو بھی شہید کیا۔ یوں انھوں نے قبائلی معاشرے کا تاروپود بکھیر دیا اور وہاں جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس والے کلچر کو پروان چڑھایا۔ اب بھی ان علاقوں میں پاکستان دوست قبائلی رہنماؤں کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ غیر ملکی طاقتوں کے مالی و عسکری تعاون کے باعث پاکستان مخالف جنگجو تنظیموں نے صوبہ خیبرپختون خواہ میں جگہ جگہ اپنے مرکز قائم کرلیے۔ آخر انہیں نیست و نابود کرنے کی خاطر پاک فوج حرکت میں آئی اور اب قبائلی ایجنسیوں میں جنگجوؤں کے خلاف کامیابی سے ’’ضرب عضب‘‘ کے علاوہ مختلف فوجی آپریشن جاری ہیں۔

یہ بات خوش آئند اور مسّرت کن ہے کہ پاک فوج کے تربیت یافتہ، محب وطن اور دلیر جوان انتہائی سرگرمی سے جنگجوؤں کا قلع قمع کر رہے ہیں۔ ہماری افواج کے ذہین دماغوں نے پاکستان دشمن تنظیموں کا نیٹ ورک اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر توڑ ڈالے اور انہیں تتّر بتّر کر دیا۔

اب جنگجوؤں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اب وہ پاکستانی قوم و مملکت کے خلاف کس قسم کی حکمت عملی اپنائیں۔ ان کے منتشر ہونے اور شکست کھانے کی بڑی نشانی یہ ہے کہ پاکستانی شہروں میں بم دہماکے خصوصاً خودکش حملے تقریباً ختم ہو چکے۔ یہ کامیابی ہمارے بہادر جوانوں کی شاندار کارکردگی کے باعث ہی وجود میں آ ئی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک افواج افغانستان سے لگنے والی سرحد کی نگرانی کا مربوط و جامع نظام قائم کریں۔ گو طویل (2600 کلومیٹر) اور پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث افغان پاکستان سرحد کی نگرانی کٹھن مرحلہ ہے مگر پاک افواج نے یہ کام بخوبی انجام دیا تو پاکستان دشمن طاقتوں کے عزائم خاک میں ملانا ممکن ہو جائے گا۔ پھر اس طرح قومی دفاع بھی مضبوط تر ہو گا۔ ہزاروں سال قبل چینی ماہر عسکریات، سن تنزو نے کہا تھا:

’’جو قوم اپنا دفاع مضبوط بنالے، اسے طاقتور سے طاقتور فوج بھی تسخیر نہیں کرسکتی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔