(پاکستان ایک نظر میں) - میاں صاحب دو، دو ہاتھ کرہی لیں!

آصف علی لنگوو  منگل 30 ستمبر 2014

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

کہا یہ جارہا ہےگزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری دھرنوں کے نتیجے میں پاکستان کو 600ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی افر تفری کی وجہ سے ملک کی سیاست ، معیشت اور معاشرت پر بھی افر تفری پھیل چکی ہے۔ ہر طرف ضد ہے۔ عمران و قادری نے وزیر اعظم کے استعفی کو جبکہ حکومت اور اُس کی اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کے بچانے ضد کی ہوئی ہے غرض یہ کہ اس وقت ہٹانے اور بچانے کی سیاست ابھر چکی ہے ۔

جنگ اقتدار کی ہے نواز شریف اقتدار چھوڑنا نہیں چاہتے اور عمران و قادری اقتدار برداشت کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔ درحقیقت 600ارب روپے کا اس نقصان کا ذمہ دار ہی ملک و ملت کا اصل دشمن ہے ۔ ذمہ دار کون ہے ؟ کیوں ہے ؟ کیسے ہے ؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔

اس وقت پاکستان میں سیاسی بحران میں تین طبقات سامنے آ چکے ہیں ۔

ایک وہ طبقہ ہے جو عمران خان کے دھرنا و لانگ مارچ کو ڈانس مارچ اور غیر جمہوری قدم سمجھ رہے ہیں ۔

دوسرا وہ طبقہ ہے جو دونوں کی بھلائی چا ہتے ہیں کبھی اس طرف تو کبھی اُ س طرف ۔ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنا ولانگ اور انقلاب مارچ کو جائز بھی مانتے ہیں اور  حکومت کو جاری  رہنے کی بات بھی کرتے ہیں ۔

تیسرا طبقہ پی ٹی آ ئی ، منہاج القران کے کارکنان، ووٹرز جو عمران خان اور قادری کے ساتھ نظریاتی ہمسفرجو عمران خان اور قادری کے دھرنوں کو جائز اورجاری رکھنے کے حق میں ہیں ۔

بحرحال ! مجھے پہلے اور دوسرے طبقے سے صد افسوس ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں حقائق سے خودکو ، عوام کو اورمیڈیا سے نظر انداز کر رہے ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں کہ پہلا دوسرا طبقہ ہی موجودہ حالات اور بحران کے ذمہ دار ہیں ۔ دھرنا، لانگ اور انقلاب مارچ کب سے ؟ کون کر رہا ہے یا کون کروا  رہا ہے ؟ وہاں کیا کیا ہو رہا ہے اور کیا کیا نہیں ؟ مرد و خواتین ڈانس کر رہے ہیں ؟ صفائی ہے یا نہیں ؟ سارا دن میڈیا اور عوام میں یہی بحث ہے ۔ درحقیقت ملک و ملت سے یہ لوگ دھوکہ دہی کر رہے ہیں۔ حقیقت اور موجودہ بحران پر پردہ پوشی بھی کر رہے ہیں ۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان لوگوں کا مقصد کیا ہے ؟ ان کے مقاصد سے ملک اور ملت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟

ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے ایجنڈے واضح ہیں مثلاََ ایک مہینے کے لئے وزیر اعظم عہدے سے دست بردار ہونا ۔ دھاندلی کی شفاف تحقیقات ہونا، دھاندلی میں ملوث افراد کو سزا دینا ۔

کیا وزیر اعظم کی کرسی کسی کی جاگیر  ہے ؟ کیا نواز شریف وزیر اعظم کی  کرسی وراثت میں لے کر آئے ہیں؟  اِس بات میں آخر کیا مصیبت ہے کہ اگر نواز شریف صاحب ایک ماہ کے لیے وزارت عظمٰی کے لیے کسی اور کو منتخب کرلیں؟ اور ویسے بھی جس مقصد کے لیے یہ کرسی عوام نے نواز شریف کے حوالے کی ہے اور جب وہ مقصد ہی پورا نہ ہورہا ہے پھر اُس پر قبضہ کس حق کے ساتھ رکھا جارہا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اقتدار کسی کی جاگیر یا ملکیت اور وراثت نہیں کہ جس کا قبضہ ہو وہی قبضہ کرتا رہے نہیں یہ جمہو ریت کے برعکس عمل ہے ۔ مان لیتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ملزم ہیں مجرم نہیں  اور وہ دھاندلی میں ملوث بھی نہیں تو آخر وہ کیونکر ایک بار دھاندلی کی شفاف تحقیقات کرواکر عمران خان کو غلط ثابت نہیں کردیتے اور لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے اچھے جذبات اُبھارنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرلیتے۔

لیکن اگر وہ ایسا نہیں کررہے تو کہنے والے حق بجانب ہونگے کے لیے کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔  درحقیقت حاکموں کے اُو پر انگلی اٹھنے سے پہلے حاکم شرم کے مارے اقتدار ہی چھوڑ دیتے تھے ، لیکن یہاں ضد اور انا  نے معاملے کو خراب کیا ہوا ہے۔ جس سے ملک کو 600ار ب روپے کا نقصان ہوا ہے ۔اور میں یہ اُصولی طور پر سمجھتا ہوں کہ اِس نقصان کی ذمہ داری نواز شریف  اور اُن کی حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اپوزیشن کا تو کام ہی احتجاج ہوتا ہے مگر مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری تو حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔