(پاکستان ایک نظر میں) - انصاف کے منتظر لوگ

محمد عمیر دبیر  منگل 30 ستمبر 2014
ان معصوم لوگوں کا کیا قصور تھا؟ لواحقین اب بھی اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔ فوٹو فائل

ان معصوم لوگوں کا کیا قصور تھا؟ لواحقین اب بھی اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔ فوٹو فائل

30ستمبر 1988حیدر آباد میں ایک قیامت بپا کر کے چلی گئی ۔ اُس دن سورج روز کی طرح اپنی ہلکی زرد کرنوں کے ساتھ غروب ہورہا تھا ۔ بازار اور گلیوں میں روز کی طرح رونق تھی ۔ اسٹاپ پر لوگ کھڑے اپنی منزلوں پر جانے کے لئے گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ کچھ لوگ منزلوں کی جانب رواں دواں تھے ۔ چونکہ یہ جمعے کا دن تھا تو اس دن کو اہلیان حیدرآباد کالے جمعے کا دن بھی کہتے ہیں۔

مغرب کی اذانیں ہوئیں لوگ مساجد گئے نماز مغرب ادا کی ۔ اندھیرا ہوتے ہی پورے شہر کی یک دم لائٹ بند ہوگئی ۔ پورے حیدر آباد میں بلیک آؤٹ ہوگیا ۔ اچانک ہی شہر کے مختلف حصوں، بستیوں اور علاقوں میں درجنوں گاڑیاں گھس آئی ۔ جن میں مسلح ملزمان سوار تھے۔ انہوں نے خودساختہ ہتھیاروں سے عوام پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ یہ فائرنگ بیک وقت حیدر آباد کے مختلف گنجان آباد علاقوں اور بازاروں گاڑی کھاتہ ،ہیر آباد ،پریٹ آباد ،ٹنڈو ولی محمد ،سرے گھاٹ، تلک چاڑی ،کالی موری ، لچپت روڈ ، اسٹیشن روڈ ،کھوکھر محلہ ، پکا قلعہ ، اسٹیشن روڈ صدر ،سرفراز کالونی اور لطیف آباد میں شروع ہوگئی ۔ چونکہ حیدرآباد بلیک آؤٹ تھا اس لئے اُس وقت صرف فائرنگ اور آہ و بکا کی آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔بچے چیخ رہے تھے ، رونے کی آوازیں آرہی تھی ۔ زندہ مائیں اور باپ اپنے ہاتھ چھوڑ جانے والے بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ اس حملے میں دستی بم بھی استعمال کئے گئے ۔ مسلح دہشت گردوں نے ستر سے زاہد مقامات پر قتل و غارت گیری کا بازارگرم کر ڈالا تھا ۔اس سانحے میں سب سے زیادہ انسانی جانوں کا ضیاء لطیف آباد میں ہوا اس کے بعد دوسرا متاثرہ علاقہ ہیر ا آباد تھا ۔

اس سانحے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 7 افراد کو بھی یہی موت کی نیند سُلا دیا گیا تھا ۔ بجلی بحال ہوتے ہی مساجد سے اعلانات ہونے لگے ۔ اسپتالوں زخمیوں اور جاں بحق افراد سے بھر گئے ۔ریشم گلی میں دہشت گردوں نے گاڑی سے اتر کر پیٹ سے پیٹ ملا کر لوگوں پر اسطرح سے فائرنگ کی کہ وہاں موجود لوگ بتاتے ہیں کہ لگ یہ رہا تھا کہ دشمن نے ہم پر حملہ کر دیا ۔اس سانحہ میں تقریبا 300کے قریب لوگ اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے جاملے اور تقریبا 300سے زائد لوگ زخمی ہوئے ۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں بچوں سمیت ہر عمر کے افراد شامل تھے۔ لواحقین اپنے پیاروں کی شناخت میں اسپتال پہنچ رہے تھے اور سب کے منہ پر ایک ہی جملہ تھا کہ ہمیں یہ کس بات کی سزا دی گئی ہے ۔ اس حملے کے ملزمان میں ڈاکٹر قادر مگسی مرکزی ملزم نامزد ہوئے تھے ۔اس کے علاوہ اس وقت کے نامور ڈاکو جانو آرائیں کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوا ۔ کئی لوگوں نے ملزمان کو شناخت بھی کر لیا لیکن ایڈشنل جج نے ضمانت منظور کر کے ملزمان کو رہا کر دیا۔

سانحہ حیدرآباد کو آج 26 سال کاعرصہ گزر گیا لیکن متاثرین آج بھی انصاف سے محروم ہیں۔ نہ کسی کو کسی قسم کی حکومتی امداد ملی اور نہ ہی متاثرین کو انصاف فراہم کیا ۔ان معصوم لوگوں کا کیا قصور تھا؟ لواحقین اب بھی اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے آج بھی مختلف پروگراموں میں اس سانحے کو شامل کریں گے اور سہر حاصل گفتگو کے بعد بھول جائیں گے، لیکن سانحہ سے متاثرہ افراد کے زخموں کو ہرا کر جائیں گے۔ کاش ایسے درندوں کی شناخت ہوسکے جن کی نظر میں انسانیت کی کوئی قدر نہیں، احساس سے عاری ایسے لوگوں کو پوری دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بنا دینا چاہئے تاکہ پھر کوئی ذی روح معصوم لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیل سکے۔

آخر میں ان تمام لوگوں کے لئے ایک شعر جو اس سانحے میں شہید ہوئے۔

نہ جانے کیسے بھول جاتے ہیں حاضر و ناظر خدا کو
ہم تو اپنے شہداء کو بھی بھولا نہیں کرتے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔