پرتشدد سیاست بلاجواز ہے

ایڈیٹوریل  بدھ 1 اکتوبر 2014
زیادہ وسیع تر تناظر میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کا وائرس خود ساختہ انتہا پسندانہ اور نظریاتی ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے جس کے خلاف پاک فوج آپریشن کررہی ہے۔ فوٹو: فائل

زیادہ وسیع تر تناظر میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کا وائرس خود ساختہ انتہا پسندانہ اور نظریاتی ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے جس کے خلاف پاک فوج آپریشن کررہی ہے۔ فوٹو: فائل

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے کہا ہے کہ کراچی میں جرائم کے مکمل خاتمہ تک بلا تفریق رنگ ونسل اور صوبہ آپریشن جاری رکھا جائے۔ یہ اس بے مثال اور بندہ نواز منی پاکستان میں آپریشن کے جاری رکھنے کا متفقہ فیصلہ تھا جسے بلا جواز تشدد، ناقابل بیان قتل و غارت، ہولناک فرقہ وارانہ، لسانی، گروہی ٹارگٹ کلنگ اور بے تحاشا بھتہ خوری کے ناسور نے مسخ شدہ زندہ لاش بنا دیا ہے۔ جس روز سینیٹ کمیٹی کا اجلاس ہوا اسی دن شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ و پرتشدد واقعات میں مزید 5 افراد ہلاک جب کہ 13 زخمی ہوگئے۔

اجلاس میں جہاں پر تشدد و واقعات کے حوالے سے کئی نکات زیر غور آئے وہاں اس بات پر تو بطور خاص بحث ہونی چاہیے تھی کہ منی پاکستان میں امن کے قیام کے لیے ان سارے عوامل کا خاتمہ از بس ضروری ہے جو امن کی کوششوں کو سبوتاژ یا ملیا میٹ کرتے ہیں، مثلاً سماجی، سیاسی و مسلکی امتیاز، عدم مساوات اور غربت و بیروزگاری ۔ کراچی میں لاقانونیت کی کیمسٹری اس درجہ طلسماتی اور دیو مالائی شکل اختیار کرگئی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی درپردہ سرپرستی میں پلنے والے دہشت گرد ، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور مشہور امریکی دانشور نوم چومسکی کے بقول صرف  اس سوچ و روش پر گامزن ہیں کہ جو لوگ طاقت و اختیار رکھتے ہیں وہ صرف تشدد کی زبان سمجھتے ہیں، چنانچہ ایک طرح سے بدامنی اور ان کا مجرمانہ کردار ریاستی دہشت گردی کا برملا جواب یا رد عمل ہے، دوسری طرف کوئی سیاسی جماعت اپنے اندر کے ٹارگٹ کلرز کو نہ تسلیم کرتی ہے اور نہ اسے اپنے ہاتھوں سے قانون کے سپرد کرنے پر تیار ہے۔

ستم ظریفی دیکھیں کہ گینگ وار لارڈز مفرور ہیں، کوئی لندن ، کوئی دبئی اور کوئی جنوبی افریقہ میں مقیم ہے مگر ان کے کارندے دھڑلے سے بھتے کی پرچیاں تقسیم کرتے ہیں۔ علاقے بٹے ہوئے ہیں، ان کے درمیان بھی ایک ’’میثاق جرائم‘‘کی موجودگی کا شبہ موجود ہے ، جمہوریت رسوا ہو رہی ہے ۔ اصل تضاد بھی یہی ہے ، جب کہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے تحت اوپن سیکرٹ یہ ہے کہ کراچی میں ہر سیاسی جماعت کے عسکری ونگ ہیں۔ زیادہ وسیع تر تناظر میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کا وائرس خود ساختہ انتہا پسندانہ اور نظریاتی ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے جس کے خلاف پاک فوج آپریشن کررہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تشدد اور دہشت گردی کے خاتمہ پر سیاسی اتفاق رائے جلد سے جلد ہو لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سوموار کو چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود کی صدارت میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان و متعلقہ افسران نے شرکت کی ۔ کمیٹی کو ایم کیوایم کے دفتر پر رینجرز کے چھاپے سے متعلق کرنل طاہر محمود نے بریفنگ دی ہے۔

کراچی آپریشن کے بعد بھتہ خوری میں 55 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تحریک طالبان کے خلاف 84 آپریشن کیے گئے۔ کراچی میں 3 ہزار696 آپریشن کیے گئے ۔ ایم کیوایم کے خلاف 373 چھاپے مارے گئے۔ 560 افراد کو گرفتار کیا گیا اور241 سے مختلف اقسام کا اسلحہ برآمد کیاگیا۔ پیپلز امن کمیٹی پر369 چھاپے مارے گئے 541 گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور591  سے اسلحہ برآمد کیا گیا ۔ اے این پی کے خلاف 18 چھاپے مارے گئے جن میں40 ملزمان گرفتار کیے گئے۔ ارکان نے کہا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کا کوئی کارکن گرفتارکیا جائے تو متعلقہ سیاسی جماعت کو گرفتارکارکن کا نام فراہم کیا جائے ۔مگر کوئی اسے تسلیم کرے تو بات بنے۔ اس موقعے پر اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ کراچی آپریشن ایک سال سے جاری ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ سب سے زیادہ ظلم فاٹا والوں کی طرح لیاری والوں کے ساتھ ہوا ۔ دریں اثناء کرنل طاہر محمود نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ کراچی کے علاقہ لیاری میں دو نئے تھانے دبئی چوک اور گل محمد لین میں قائم کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ آپریشن میں طالبان کے 13 افراد مارے گئے ۔ متحدہ کے سینیٹر طاہر مشہدی نے الزام لگایا کہ رینجرز کراچی میں پانی مافیا، لینڈ مافیا اور (قربانی) جانور مافیا کی سرپرست ہے ، جس پر رینجرز حکام نے جواب دیا کہ اگر پانی مافیا سے رینجرز کا تعلق ثابت ہو جائے تو ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ یہ منی پاکستان کا سماجی ،سیاسی اور اعصابی منظر نامہ ہے جو لہو ، خوف وہراس ، بے یقینی اور عدم استحکام سے لتھڑا ہوا ہے ، ادھر بلوچستان میں نسبتاً ٹھہراؤ کے آثار ہیں مگر زیر امین کسی وقت بھی زلزلے کی آمد کے خطرات ہیں، بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان نے آواران ، کیچ میں فورسز پر دو مقامات پر حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے۔ کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایڈیشنل ایس ایچ او کو ہلاک کردیا جب کہ خیبرایجنسی کے علاقے وادی تیراہ میں عسکریت پسندوں کے مرکز میں دھماکے سے 6 افراد ہلاک ہوگئے۔

سرکاری ذرایع کے مطابق پیر کو تیراہ کے علاقے راجگل میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں میں بارودی مواد زور دار دھماکے سے پھٹ گیا ۔ دھماکے سے مرکز کو بھی نقصان پہنچا ۔ جمرود کے علاقے شاگئی میں سرچ آپریشن میں 12 مشکوک افراد گرفتار کرلیے گئے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے اسپین وام میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں 2 اہلکار لارنس نائیک لیاقت اور سپاہی جمیل زخمی ہوگئے۔ پیر کو ایڈیشنل سیشن جج اصغر علی شاہ خلجی عدالت سے ڈرائیور کے ہمراہ پشاور جارہے تھے کہ پہلوان قلعہ کے قریب نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی، گاڑی کو کئی گولیاں لگیں تاہم اصغر علی شاہ خلجی اور ڈرائیور معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ دوسری جانب تین روز قبل پشاور کے علاقہ حیات آباد میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے زخمی ہونیوالے سابق ایس پی سی آئی ڈی حیات خان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں دم توڑ گئے۔ نوشہرہ کینٹ کے علاقہ مدینہ کالونی میں مکان پر چھاپہ کے دوران میاں بیوی کو بارودی مواد سمیت گرفتار کرلیا گیا۔

یہ سارے واقعات تشدد کے ایک افسوس ناک اور بے منزل سفر کے وہ علامتی نشان ہیں جو مستقبل کی ایک ہولناک تصویر پیش کرتے ہیں، تشدد کی ایک شکل غربت کے بطن سے جنم لیتی ہے اور دوسری جہادی، سیاسی ،اور فرقہ وارانہ انتقام کے جنون میں انسانیت کو شرمسار کر رہی ہے، عالمی برادری میں وطن عزیز کو امن و سلامتی کے علمبردار دین اسلام دین کی مدافعت میں نہ معلوم کتنی  صفائیاں پیش کرنی پڑ رہی ہیں۔ یہ صورتحال کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں۔ تشدد پر مبنی سیاست اور مزاحمت کا کوئی جواز نہیں، ملکی سالمیت پر لاحق خطرات کا ہر حال میں خاتمہ ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔