افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار

ایڈیٹوریل  بدھ 1 اکتوبر 2014
اگرچہ افغان صدارتی انتخاب کا بحران کافی طوالت اور پیچیدگی اختیار کر گیا تھا لیکن اس کو پرامن طور پر حل کرلیا جانا قابل اطمینان بات ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

اگرچہ افغان صدارتی انتخاب کا بحران کافی طوالت اور پیچیدگی اختیار کر گیا تھا لیکن اس کو پرامن طور پر حل کرلیا جانا قابل اطمینان بات ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

افغانستان کے نو منتخب صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے نئے صدر جب کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ نو منتخب صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے حلف اٹھانے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی جسے انھوں نے مسترد کر دیا اور کہا ملک سے امریکی فوجوں کے انخلا تک جہاد جاری رہے گا۔ تقریب حلف برداری میں پاکستانی صدر ممنون حسین سمیت غیر ملکی صدور اور سفیروں سمیت 200 اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقعے پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

اگرچہ افغان صدارتی انتخاب کا بحران کافی طوالت اور پیچیدگی اختیار کر گیا تھا لیکن اس کو پر امن طور پر حل کرلیا جانا قابل اطمینان بات ہے اور اس کا سہرا یقیناً امریکا کے سر ہے لیکن جیسا کہ محاورہ ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں اور نہ ایک ملک میں دو بادشاہ رہ سکتے ہیں جب کہ افغانستان میں بظاہر دو بادشاہ بنا دیے گئے ہیں اور دیکھنے کی بات ہے کہ یہ انتظام کس حد تک برقرار رہ سکتا ہے۔ حلف برداری کے بعد افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کل کے حریف آج ایک ٹیم بن چکے ہیں اور وہ مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔ نومنتخب صدر اشرف غنی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک میں پہلی مرتبہ اقتدار کی جمہوری منتقلی قابلِ تعریف ہے۔ انتخابی کشیدگی کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔

تقریب میں ملک کے دو نئے نائب صدور عبدالرشید دوستم اور سرور دانش اور چیف ایگزیکٹو کے دو معاونین نے بھی اپنے عہدوں کا حلف لیا۔ بعدازاں صدر پاکستان ممنون حسین نے نئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے علیحدہ علیحد ہ ملاقاتوں میں دونوں کو مبارکباد دی۔ اور کہا کہ افغانستان کے ساتھ نئے سرے سے باہمی دوستی اور احترام کے جذبے کے ساتھ تعلقات شروع کریں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ دریں اثناء افغانستان کے نومنتخب صدر اشرف غنی نے امریکا کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کر دیا ہے یہ وہ معاملہ ہے جس کے لیے سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی تیار نہیں تھے۔

معاہدے کے مطابق 2016 کے اختتام تک نیٹو افواج افغانستان میں قیام کریں گی۔ افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار یقینا بڑی اہم اور حوصلہ افزا پیش رفت ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ افغانستان میں طالبان کے مخالف اسٹیک ہولڈرز نے اپنے مفادات میں کسی حد تک ہم آہنگی پیدا کر لی ہے‘ افغانستان کے موجودہ سیٹ اپ میں سوائے طالبان کے سب دھڑوں کو اکا موڈیٹ کر دیا گیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کتنی دیر چلتا ہے‘ اگر یہ سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کر جاتا ہے‘ اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز خوش اسلوبی سے اپنے معاملات چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں افغانستان اس خطے کے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔