افغان ثور انقلاب سے جدید افغانستان تک

قادر خان  بدھ 1 اکتوبر 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

افغانستان اپنی تاریخ کے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے، جہاں اقتدار تمام تر خدشات کے باوجود پر امن طریقے سے منتقل کرنے کی راہ ہموار ہوئی اور افغانستان کے فریقین نے باہمی رضا مندی سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کر کے فی الوقت افغانستان میں خانہ جنگی کی قیاس آرائیوں کو ختم کر کے افغانستان میں جمہوریت کے نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔

افغانستان کی سرزمین ہمیشہ سے سامراجی قوتوں کی سازشوں کا گڑھ بنی رہی ہے اور اس کے براہ راست نتائج ساری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں، افغانستان میں سامراجیت اور بنیاد پرستی کی وحشت کا ننگا ناچ جب بھی کھیلا جاتا ہے تو افغان ثور انقلاب کی اہمیت کئی دوچند ہو جاتی ہے۔ افغان ثور انقلاب حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں پرولتاریہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ ملک کی کوئی صنعتی بنیاد نہیں تھی مختلف بادشاہتوں نے برسوں حکومت کی، شرح خواندگی 10% سے بھی کم تھی، کل قابل کاشت رقبے کا 50% صرف 05 % افراد کے ہاتھوں میں تھا، اسی سماجی بے چینی و انتشار میں خلق پارٹی کی تشکیل ہوئی اور جنوری 1965ء میں نور محمد تراکئی نے پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی آف افغانستان کی بنیاد رکھی، جنرل سیکریٹری خود تراکئی تھے۔

67 ممبروں میں ببرک کارمل، سلطان علی کشمند ہزارہ، دستیگر پنچ شیری، ڈاکٹر صالح محمد زیری، شہر اللہ شاہ پور اور ظاہر شاہ بدخشانی شامل تھے، بعد میں نور محمد نور، اکبر خیبر، ڈاکٹر حفیظ اللہ امین، اور ڈاکٹر نجیب اللہ جیسی بڑی شخصیات بھی PDPA میں شامل ہو گئیں۔ ستمبر65ء میں ببرک کارمل نے السواُلی (عوامی) جرگے میں رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے PDPA کے مقاصد اور اہمیت واضح الفاظ میں بیان کیے۔25 اکتوبر 1965 ء میں طلبا نے پارلیمنٹ کے احاطے میں اور PDPA کے ممبروں نے جمہوری، ترقیاتی اور تعلیمی ترقی کے مطالبات پیش کیے۔ ظاہر شاہ نے فوج کو بلا جواز فائرنگ کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں چھ طلبا ہلاک اور 150 زخمی ہوئے، غیر مسلح احتجاجی مظاہرے پر فائرنگ کے بعد وزیر اعظم یوسف خان نے احتجاجا استعفی دے دیا۔

ظاہر شاہ کے اقدامات کے نتیجے میں افغانستان میں غذائی اجناس کی شدید کمی، اور مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا۔ ظاہر شاہ اپنی بیماری کے علاج کے لیے بیروں ملک 17 جولائی 1973ء کو گیا تو اس دوران داؤد خان نے مسلح افواج کی مدد سے تخت پر قبضہ کر لیا۔ داؤد جو ظلم، سخت گیری، تشدد اور غلط اقدامات کے باعث افغانستان میں ’’داؤد دیوانہ‘‘ کے نام سے مشہور تھا، ستمبر 1973ء میں کئی با اثر اور نامور شخصیات اعلی فوجی افسران کو گرفتار اور بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا بے شمار کو جیلوں میں اذیتیں دیں، سابقہ وزیر اعظم ہاشم میوند وال جیل میں اذیت کے باعث مرنے والے کئی لوگوں میں شامل تھا۔ اپنے اقدامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے مطابق آئین بنا ڈالا۔ کامریڈ حفیظ اللہ امین افغان فوج کے بہت سے افسروں کو انقلابی نظریات کیجانب مائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جس کی بنیادی وجہ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کی اثر پذیری تھی۔

17 اپریل 1978 ء کو افغانستان کے صدر محمد داؤد خان کی حکومت میں PDPA کے رہنما محمد اکبر قتل ہوئے اور حکومت پر الزام لگا، 19 اپریل کو پارٹی نے کابل میں محمد اکبر خیبر کے جنازے کے موقع پر 30 ہزار افراد کی ایک ریلی نکالی اور امریکی سفارت خانے کے سامنے امریکا مخالف نعرے لگائے، اس مظاہرے کے بعد صدر داؤد نے خلق پارٹی کے سات رہنماؤں بشمول نور محمد ترا کئی کو گرفتار کر لیا، حفیظ اللہ امین کو 26 اپریل کو جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن فوج کے اندر موجود خلقی آفیسرز کو صدر داؤد کے خلاف امین اللہ امین نے فوجی بغاوت کرنے کے احکامات دے دیے تھے۔

27 اپریل 1978ء کو ائیر فورس کے کرنل عبدالقادر نے صدارتی محل پر بمباری کر دی جس میں صدر داؤد خاندان سمیت جاں بحق ہو گیا، زمینی محاذ پر محمد اسلم وطنجار، جو ایک ٹینک بریگیڈ کا کمانڈر تھا ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ کابل شہر میں داخل ہو کر داؤد کی حکومت کا خاتمہ کر کے شام سات بجے ریڈیو پر ’’مسلح افواج کی انقلابی کونسل‘‘ کا قیام اور داؤد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ فوری طور پر 35 رکنی انقلابی کونسل بنائی گئی، اس انقلاب کا سہرا انقلابی فوج کے افسروں کی حمایت اور اس حمایت کو آمادہ کرنے والے حفیظ اللہ امین کو جاتا ہے اس کو ثور انقلاب کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ انقلابی بغاوت افغانی کیلنڈر کے دوسرے مہینے ’’ثور‘‘ میں ہوئی تھی، بعد میں حفیظ اللہ امین نے ثور انقلاب کو بالشویک انقلاب 1917ء کا تسلسل قرار دیا۔

انقلابی کونسل نے نور محمد تراکئی کو صدر، حفیظ اللہ امین کو وزیر خارجہ بنا دیا، بعد میں وزیر اعظم کا عہدہ بھی حفیظ امین اللہ کے پاس چلا گیا۔ دس مئی کو نور محمد تراکئی نے PDPA کی حکومت کے پروگرام سے ریڈیو پر اعلان کیا۔ افغانستان کی تاریخ کی سب سے بڑی زرعی اصلاحات، مفت تعلیم اور علاج، جنسی برابری، لڑکیوں کی خرید و فروخت پر پابندی اور صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کیا، پہلی دفعہ افغانستان کو صدیوں کی پسماندگی، جہالت، قبائلیت اور غربت اور لاچارگی سے نکالنے اور اسے جدید سماج اور بیسویں صدی کے ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔

یہ تبدیلی عالمی استعماری قوتوں کو پسند نہیں آئی، دیگر افغانستان میں خود بھی بے چینی پائی جاتی تھی کیونکہ افغانستان کی سرزمین کے زمینی حقائق سوویت یونین سے مختلف تھے اور سوویت یونین کو لنین اور ٹراٹسکی نے تعمیر کیا تھا جب کہ افغانستان میں حالات یکسر تبدیل تھے۔ سویت یونین نے افغانستان کے نومولد انقلابی حکومت کو اپنا دست نگر بنانے کی کوشش کی لیکن حفیظ اللہ امین افغانستان کی آزاد حیثیت کا حامی تھا۔ وہ ثور انقلاب کے خلاف رد انقلاب کی سرکشی کو کچلنے کا حامی تھا، لیکن سوویت یونین ان پر ملاؤں اور ردانقلابی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا، سوویت بیوروکریسی کی سازشوں کی بنا پر نور محمد تراکئی اور حفیظ اللہ امین کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور یہی وہ موقع تھا جب سوویت یونین کو افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت کا موقع ملا اور جلا وطن پرچمی لیڈر ببرک کارمل کو روسی ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان لا کر ایک سازش کے تحت حفیظ اللہ امین کو قتل کر کے افغانستان کا صدر ببرک کارمل کو بنا دیا گیا۔

24 نومبر1986ء تک ببرک کارمل بر سر اقتدار رہا۔ کارمل کے اقتدار سنبھالتے ہی پچاسی ہزار روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ ببرک کارمل کے بعد 1992ء تک ڈاکٹر نجیب اللہ برسر اقتدار رہے۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین میں گورباچوف نے بیورو کریسی کے اقتدار کو بچانے کے لیے پریسٹرائیکا کے نام سے سیاسی اصلاحات کی راہ اپنائی، ڈاکٹر نجیب اللہ نے بھی ردانقلابیوں کو کچلنے بجائے اصلاحات اور امن کی راہ اختیار کی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے قومی مصالحتی کمیشن بنائی جس نے لگ بھگ40000 ہزار رد انقلابیوں سے رابطے کیے، جولائی 1987ء میں رد انقلابیوں اور مجاہدین کو اسٹیٹ کونسل کی بیس نشستیں اور حکومت میں بارہ وزارتوں کی پیش کش کی، رد انقلابیوں نے ان مواقعے کا بھرپور فائدہ اٹھا یا۔

روسی فوجوں کے افغانستان میں داخلے کے سبب امریکا کو مداخلت کا موقع میسر آ گیا اور امریکی سامراج نے ردانقلابی قوتوں کو افغانستان میں داخل کر دیا۔ 1989ء میں سوویت افواج کا انخلا مکمل ہوا تو 1992ء میں نجیب اللہ کی حکومت بھی گر گئی۔ پاکستان میں امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔ جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا پاکستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔

اٹھارہ سال قبل جس بھیانک و وحشت ناک طریقے سے ڈاکٹر نجیب اللہ کو ہلاک کیا گیا وہ تاریخ کا ایک المناک اور افسوسناک باب ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت کو چاہیے کہ امن کے خاطر وہ پاکستان مخالف اقدامات و کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی و در اندازی سے گریز اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مکمل توجہ مرکوز رکھے۔ شراکت اقتدار کے تحت دونوں افغان رہنماؤں کا ایک صفحے پر آنا افغانستان میں قیام امن کے لیے ناگزیر تھا۔ اب جب کہ افغانستان میں جمہوریت کا ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں پاکستان پر الزام تراشیوں، در اندازیوں کا سلسلہ دراز ہو جاتا جا رہا ہے، جو پاک، افغان تعلقات میں مسلسل کشیدگی پیدا کر رہا ہے، افغان حکومت کو اپنا منفی رویہ ترک کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔