(خیالی پلاؤ) – بندر والی کہانی

عاطف علی  جمعرات 2 اکتوبر 2014
اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ فوٹو اے ایف پی

اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ فوٹو اے ایف پی

 پیاری ڈائری!

تمہیں پچھلی بار ہی بتادیا تھا کہ دادی گھر آئی ہوئی ہیں اور مصروفیات بے تحاشہ ہیں لہٰذا اس بار غیر حاضری کی معافی نہیں مانگوں گا۔ دادی پندرہ دن رہ کر گئیں اور یہ پندرہ دن کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ اچھے وقت کی سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلدی گزر جاتا ہے۔ یا شاید وقت کی رفتار  ہمیشہ یکساں رہتی ہے مگر حالات کے اعتبار سے ہمارے لئے کبھی لمحے بھی صدیاں بن جاتے ہیں اور کبھی صدیاں بھی لمحوں کی طرح گزر جاتی ہیں۔ خیر یہ تو ایک فلسفیانہ گفتگو ہے اور تم جانتی ہو کہ اس ملک میں ہم فلسفیوں کو پاگلوں کی ہی ایک قسم  گردانتے ہیں لہٰذا مزید فلسفے سے گریز کرتا ہوا میں دن بھر کی روداد پر آجاتا ہوں۔

دادی نے آج صبح جانا تھا مگر ہم سب کل سے ہی اداس ہوکر بیٹھ گئے تھے۔ دادی کی محبت بھری جھڑکیاں، ہمارا بےتحاشہ خیال رکھنا، اور سب سے بڑھ کر روزانہ ایک نئی کہانی سنانا، یہ سب چیزیں دادی کے اگلی مرتبہ گھر آنے تک ہم سے چھن جانی ہیں اور یہ خیال ہم سب بہن بھائیوں کو بری طرح بےچین کر رہا تھا۔ کافی دیر ضبط کرنے کی کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں نے دادی کی گود میں سر رکھ دیا اور پھوٹ بہا۔ دادی نے مسکراتے ہوئے میرے آنسو پونچھے اور یاد دلایا کہ خاندان کے باقی بچوں کا بھی ان پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا، لہٰذا ہمیں اپنے حصے کو غنیمت جانتے ہوئے ایثار سے کام لینا چاہیئے ورنہ ہمارا حال بھی ان بندروں جیسا ہی ہونا ہے جنہوں نے شدید بھوک کے عالم میں بھی زیادہ کے لالچ میں چنے ٹھکرا دیئے تھے۔ میں نے بندروں کی یہ کہانی پہلے نہیں سنی تھی تو دادی نے مجھے سمجھانے اور خوش کرنے کیلئے بندروں کی وہ کہانی سنا دی۔

دادی کا کہنا تھا کہ کسی جنگل میں دو بندر بھوکے گھوم رہے تھے۔ بیچاروں نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ جنگل میں موجود تیسرے بندر نے جب ان بندروں اور ان کی مجبوری کو دیکھا تو اسے بڑا ترس آیا۔ ترس سے زیادہ اسے یہ ڈر تھا کہ اگر یہ بندر یہاں رزق کی تلاش میں روز آنے لگے تو جنگل میں اس کی یکطرفہ حکومت ختم ہوجائے گی اور اسے ان بندروں کو بھی اپنے کھانے میں سے حصہ دینا پڑے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے گھر میں موجود بھنے ہوئے چنے اٹھائے اور ان بندروں کے پاس جاپہنچا۔ اس نے اپنے پاس موجود چنوں کی چھ میں سے پانچ  ڈھیریاں ان دونوں بندروں کو پیش کردیں کہ وہ چاہیں تو ان سے اپنی بھوک مٹا لیں۔ بندر بھوکے تو بہت تھے مگر دونوں ہی بلا کے خوش فہم اور بےوقوف بھی تھے۔ ان دونوں نے سوچا کہ جب یہ پانچ ڈھیریاں دینے پر تیار ہوگیا ہے تو ذرا سا رعب اور جذبانی دباؤ ڈال کر چھٹی ڈھیری بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ان دونوں نے اس تیسرے بندر کو غصے دیکھا اور چنے اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے بولے، ہم بھوکے ہیں مگر ہماری رگوں میں بادشاہ بندر کا خون دوڑ رہا ہے۔ ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم تمہارا احسان لیں اور یہ بھنے ہوئے چنے کھائیں! بادشاہ زادے اب یہ چنے کھائیں گے؟ ویسے بھی اگر دینے ہی ہیں تو ہمیں چنے کی تمام چھ ڈھیریاں دو تاکہ ہم برابری کی بنیاد پر آپس میں بانٹ سکیں! ورنہ ہم تھوکتے ہیں ان چنوں پر۔

بندر نے حیرت سے ان کی شکل دیکھی اور انہیں سمجھایا کہ اس وقت چنوں کی ضرورت اس سے زیادہ ان دونوں کو ہے۔ اور اگر اس نے چھٹی ڈھیری بھی ان کو دے دی تو وہ خود کیا کھائے گا؟ اب اس بات پر بندروں کی بحث شروع ہوگئی۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے اصولی موقف سے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ جنگل کے دوسرے جانوروں نے بیچ بچائو کرانے کی کوشش بھی کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بندروں کے مابین یہ بحث 50 منٹ تک جاری رہی اور آخر میں وہ دونوں  بندر ان چنوں پر تھوک کر، کچھ اور کھانے کی تلاش میں آگے بڑھ گئے۔

خدا تعالٰی کو ضد اور ہٹ دھرمی کبھی بھی پسند نہیں رہی، چاہے وہ کوئی بھی مخلوق کرے۔ ان ضدی بندروں کو ان کے کئے کی سزا یہ ملی کہ پورا دن کھانے کی تلاش میں گھومنے کے باوجود انہیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا۔ جنگل کے جس درخت پر پھل دکھتا اس پر پہلے سے کوئی اور جانور قبضہ کرکے بیٹھا ہوتا اور اگر اتفاق سے کوئی درخت خالی مل بھی جاتا تو اس کا پھل اتنا کسیلا اور زہریلا ہوتا کے وہ ایک لقمہ بھی نہیں لے پاتے۔ پورا دن جنگل میں گھومنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال یہ دونوں بندر بالآخر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ روتے روتے ان کی نظر کچھ ہی فاصلے پر پڑے ان چنوں پر گئی جنہیں ٹھکرا کر وہ صبح یہاں سے آگے چلے گئے تھے۔ بھوک کے عالم میں یہ چنے جنت کے کسی میوے سے کم نہیں تھے۔ بندروں نے چاہا کہ بڑھ کر ان چنوں کو اٹھا لیں مگر پھر یاد آگیا کہ صبح وہ ان ہی چنوں پر تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ اب اگر کوئی ان دونوں کو یہ چنے کھاتا دیکھ لیتا تو وہ دونوں شرم کے مارے دوبارہ اس جنگل میں قدم رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔

دونوں بندر حسرت سے ان چنوں کو دیکھنے اور اس وقت کو کوسنے لگے جب جذبات اور مزید پانے کے لالچ میں انہوں نے ان چنوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ شدید بھوک کے عالم میں کھانا سامنے دیکھ کر ان بندروں کی وہی حالت تھی جو کسی ترقی پذیر ملک میں کئی سال اپوزیشن کرنے کے بعد حکومت میں آنے والی جماعت کی ملکی خزانے کو دیکھ کر ہوتی ہے۔

جب برداشت بالکل جواب دے گئی تو ان میں سے ایک بندر اٹھا اور ان چنوں کے پاس پہنچ گیا جو زمین پر اب تک بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا دیکھا دیکھی دوسرا بندر بھی خاموشی سے اس کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بندر بھوکے تھے اور چنے سامنے موجود تھے، مگر دونوں میں سے کوئی ایک بندر بھی پہلا چنا کھانے کی خفت اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ کافی دیر اس ہی طرح گزر گئی تو بڑا بندر چنے کی ایک ڈھیری اٹھاتے ہوئے بولا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اس والی ڈھیری پر نہیں تھوکا تھا۔ دوسرے بندر نے بھی فورا ایک ڈھیری اٹھائی اور بولا، یہ والی تو ویسے بھی دور جاکر گری تھی سو اس پر تو تھوکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے بندر نے اب کی بار ایک ساتھ دو ڈھیریاں اٹھائیں اور انہیں منہ میں رکھتے ہوئے بولا، اور یہ تو بالکل خشک ہیں جیسے ان پر کبھی کوئی گیلی چیز پڑی ہی نہ ہو۔

ایک ایک کرکے تاویلات آتی گئیں اور ڈھیریاں کم ہوتی چلی گئیں۔ چند ہی لمحوں میں بندروں نے وہ پانچوں ڈھیریاں چٹ کرڈالیں جن پر کچھ وقت پہلے وہ خود تھوک کر آگے بڑھ گئے تھے۔ بھوک تو مٹ گئی مگر بندروں نے اس دن یہ سبق سیکھ لیا کہ عزت اس ہی بات میں ہے کہ اگر بھوک شدت اختیار کرجائے تو جتنا ملے اس کو غنیمت جان کر آگے بڑھ جانا چاہیئے۔ اگر  چھ میں سے پانچ ڈھیریاں اپنی مرضی کی مل رہی ہوں اور پھر بھی بندر ضد پر اڑے رہیں تو چھٹی ڈھیری کے چکر میں یا تو بندر پہلی پانچ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا بالآخر اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دادی نے یہ کہہ کر کہانی ختم کی اور میرا ماتھا چوم کر سونے چلی گئیں۔

 صبح سو کر اٹھا تو پتہ چلا کہ دادی تایا ابو کے گھر کیلئے نکل گئی ہیں۔ دادی کے جانے کے بعد گھر میں اب کرنے کو کچھ ہے نہیں سو صبح سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ بندر والی کہانی میں نے چند ہی دن پہلے ٹیلی ویژن کے کسی ڈرامے میں بھی دیکھی ہوئی ہے۔ ڈرامے کا نام یاد نہیں آرہا مگر جیسے ہی یاد آیا تو ضرور بتائوں گا۔ تب تک کیلئے اجازت۔

تمہارا،

زبان دراز

 (نوٹ: ذیل کی تحریر بچوں کی ایک مشہور لوک کہانی سے ماخوذ ہے اور کسی بھی اتفاقیہ مماثلت کی صورت میں مصنف ذمہ دار نہیں ہوگا۔)

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔