(پاکستان ایک نظر میں) - نئی داستان

فرمان نواز  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
پاکستان کی بیٹی نے نوبل انعام جیت کر یہ ثابت کردیا کہ بلندعزم، ہمت اور حوصلے سے دنیا کی بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

پاکستان کی بیٹی نے نوبل انعام جیت کر یہ ثابت کردیا کہ بلندعزم، ہمت اور حوصلے سے دنیا کی بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ملالہ کو امن کا نوبل انعام ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ دُنیا پاکستانی عورت کی معاشرے میں جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ملالہ ایک جدوجہد کا نام بن کر ابھری ہے جس کا مقصد قوم کو ایک ایسی فضا فراہم کرنا ہے جس میں عورتوں کی تعلیم اور ترقی کیلئے نئی راہیں نکلتی ہوں۔

حال ہی میں ملال نے پشتو زبان میں مشعل ریڈیو کو دیئے جانے والا انٹرویو میں یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے لڑکیوں کی تعلیم بے حد ضروری ہے۔ میں نے کبھی کسی بھی انٹرویوں میں ملالہ روتے ہوئے نہیں دیکھا۔اس کی وجہ شاید وہ الفاظ ہیں جو یو این میں تقریر کرتے ہوئے ملالہ نے کہا؛

’’اس ایک حادثے نے میرے خوف ، کمزوری اور نااُمیدی کو ختم کر کے مجھے طاقت، قوت اور حوصلہ دیا‘‘۔


ملالہ یوسفزئی نے 2009 میں سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات کے بارے میں اپنی قلمی نام ’’گل مئی‘‘ سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی ۔تب اُس کی عمر گیارہ بارہ سال تھی، وہ وادی سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی نئی شمع روشن کرنا چاہتی تھی۔ اُسی سال نیو یارک ٹائمز نے ملالہ کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی اور اُسے انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز کیلئے نامزد کیا گیا۔ لیکن 9اکتوبر 2012 کی تاریخ ملالہ کی زندگی میں ایک طوفان لے کر آئی جب طالبان نے پاکستان کی بیٹی پر گولیاں برسائیں، لیکن ملالہ نے ہمت اور بہادری کے ساتھ ہر زخم اور تکلیف کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمت اور حوصلے کی نئی داستان رقم کردی، جیسے نہ صرف قومی بلکہ دنیا کے ہر فورم پر سراہا گیا۔

یہ ملالہ کی جدوجہد ’’I am Malala Petition‘‘ کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا پہلا رائٹ ٹو ایجوکیشن بِل 2012 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے پاس کیا۔ اکتوبر 2012میں ملالہ کو پاکستان نے ستارہ شجاعت کا اعزار دیا۔ جبکہ نومبر 2012 میں ملالہ کو مدر ٹیریزا کا سوشل جسٹس ایوارڈ دیا گیا۔ 29اپریل 2013کے ٹائم میگزین کے سرِ ورک پر ملالہ یوسفزئی کی تصویر دی گئی اورملالہ کو دُنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل کیا گیا۔

12جولائی 2013کو اپنی سالگرہ کے موقع پر ملالہ نے یو این او میں خطاب کیا اور تعلیم کی اہمیت اور حصول پر زور دیا۔ یو این نے 12جولائی کو ملالہ ڈے بھی قرار دیا ہے۔ جس کے متعلق ملالہ کا کہنا ہے کہ یہ میرا دن نہیں بلکہ یہ ہر اُس عورت، لڑکے اور لڑکی کا دن ہے جس نے اپنے حقوق کیلئے آواز اُٹھائی۔ جبکہ اسی سال 8 اکتوبر 2013 میں ’’ آئی ایم ملالہ‘‘ (I am Malala) کتاب شائع کی گئی جس کو برطانوی اخبار The Guardian نے ٖFearless یعنی نڈر قرار دیا۔

2013 میں ملالہ کو یورپین پارلیمنٹ کا شیکارو پرائز فار فریڈم آف تھاٹ ملا۔ اکتوبر 2013 میں کنیڈین پارلیمنٹ نے ملالہ کو اعزازی کنیڈین شہریت دینے کا ارادہ ظاہر کیا ۔فروری 2014 میں سویڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کیلئے نامزد کیا گیا۔ جبکہ مئی 2014 میں ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ اور 10 اکتوبر 2014 کو ملالہ نے 17 سال کی عمر میں امن کا نوبل پرائز حاصل کیا۔

ملالہ کو اب تک 35مختلف اعزازات ملے ہیں۔ ملالہ نے سچ کہا تھا کہ؛

’’ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے‘‘۔

آج وہ ہمارے سامنے کھڑی دُنیا کی نہ صرف کم عمر نوبل ایوارڈ حاصل کرنے والی پاکستانی لڑکی ہے بلکہ ملالہ کا نام ہی ایک مشن کا نام بن چکا ہے جس کا مقصد ملالہ کی ذاتی شہرت اور دولت کا حصول نہیں بلکہ سب کیلئے تعلیم کا حصول ہے۔ پاکستان کی بیٹی نے نوبل انعام جیت کر یہ ثابت کردیا کہ بلندعزم، ہمت اور حوصلے سے دنیا کی بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ میری نظر میں ملالہ کا مشن کسی کی سازش نہیں بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کیلئے ایک آواز ہے جس تبدیلی کا مطالبہ ہم سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔