وادی نیلم سے

جاوید چوہدری  پير 13 اکتوبر 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

میں عید کے تیسرے دن آزاد کشمیر کی نیلم ویلی چلا گیا‘ میرے بچے بھی میرے ساتھ تھے‘ ہم اسلام آباد سے نکلے اور چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد مظفر آباد پہنچے‘ سڑک بہت خراب تھی‘ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ سے غائب تھی ‘ ہم شام کے وقت مظفر آباد پہنچے‘ مظفر آباد میں ایک ہی فائیوسٹار ہوٹل ہے‘ یہ ہوٹل خوبصورت مقام پر بنایا گیا‘ آپ کو چاروں طرف سے شہر دکھائی دیتا ہے‘ ہوٹل کی بالکونیوں‘ لانوں اور کمروں کی کھڑکیوں سے مظفر آباد یورپ کا حصہ دکھائی دیتا تھا‘ دھوپ چھتوں پر باقی تھی‘ لوہے کی چھتیں چمک رہی تھیں‘ زلزلے کو گزرے نو سال ہو چکے ہیں مگر زلزلے کے اثرات ابھی تک شہر میں موجود ہیں‘ سڑکیں مکمل نہیں ہوئیں‘ لوگوں کے چہروں پر خوف بھی آج تک باقی ہے۔

آپ کسی سے خیریت پوچھیں اس کے چہرے پر خوف کا سایہ آ جائے گا‘ وہ دائیں بائیں دیکھے گا اور پھر جواب دے گا‘ شہر میں سڑکوں کی تعمیر اور اڑتی ہوئی دھول ہماری نالائقی کا منہ بولتا ثبوت تھا‘ دنیا نے 2005ء کے زلزلے کے بعد دل کھول کر ہماری مدد کی لیکن یہ مدد کرپٹ نظام کے معدوں میں چلی گئی‘ ہم آج تک مظفر آباد کو بحال نہیں کر سکے‘ ہمارے مقابلے میں وہ ممالک جنہوں نے براہ راست پیسے دینے کے بجائے تعمیراتی منصوبے شروع کیے تھے‘ وہ کام مکمل کر کے سات سال قبل پاکستان سے جا چکے ہیں جب کہ ہم ابھی تک جوتے تلاش کر رہے ہیں‘ میری وزیراعظم میاں نواز شریف اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے درخواست ہے‘ یہ فوری طور پر میٹنگ کریں اور فیصلہ کریں اگلے سال زلزلے سے متعلق تمام منصوبے ہر صورت مکمل ہو جائیں گے۔ دس سال بعد ہی سہی لیکن کم از کم زلزلے کی فائل ضرور بند ہونی چاہیے۔

ہم اگلے دن کیرن روانہ ہو گئے‘ مظفر آبادکے دو مقامی صحافی راجہ وسیم اور مرزا اورنگ زیب ہمارے گائیڈ تھے‘ یہ دونوں پڑھے لکھے اور متحرک نوجوان ہیں‘ ہم دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ بلندی کی طرف سفر کر رہے تھے‘ راستے میں ’’نیلم جہلم پراجیکٹ‘‘ آیا‘ بجلی کا یہ منصوبہ 17برس تک ہماری روایتی سستی کا شکار رہا‘ موجودہ حکومت نے اس پر خصوصی توجہ دی‘ اس منصوبے پر اب دن رات کام ہو رہا ہے‘ یہ اگر وقت پر مکمل ہو گیا تو لوڈ شیڈنگ میں خاصی کمی آ جائے گی‘ میں نے گاڑی کی کھڑکی سے نیلم جہلم پراجیکٹ دیکھا اور میں کشمیریوں کی وسعت قلبی اور وژن کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا‘ منگلا ڈیم ہو یا نیلم جہلم پراجیکٹ کشمیری عوام نے کبھی کسی تعمیری منصوبے کو تعصب کی نظروں سے نہیں دیکھا‘ انھوں نے ہمیشہ خوش دلی سے ملکی منصوبوں کی اجازت دی جب کہ ہم چالیس سال سے کالا باغ ڈیم پر لڑ رہے ہیں۔

ہم اس سے تعصب کا زہر نہیں نکال سکے‘ کاش ہم کشمیریوں ہی سے دل کھلا رکھنے کا ہنر سیکھ لیں‘ نیلم ویلی کے راستے میں ٹیٹوال کا گاؤں آتا ہے‘ ٹیٹوال کے دو حصے ہیں‘ ایک حصہ آزاد کشمیر میں شامل ہے جب کہ دوسرا حصہ مقبوضہ کشمیرکے قبضے میں ہے‘ درمیان میں سوفٹ کا دریائے نیلم بہتا ہے‘ ہم لوگ وہاں رک گئے‘ دریا کے دوسری طرف بھارتی ٹیٹوال تھا‘ دور دور تک گھر بکھرے تھے‘ سامنے اسکول کی عمارت تھی‘ عمارت پر بھارتی جھنڈا لہرا رہا تھا‘ میدان میں باسکٹ بال کے پول لگے تھے‘ لوگ بھی چل پھر رہے تھے‘ بھارتی حکومت نے آزاد کشمیر کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے بھاری سرمایہ لگا کر ٹیٹوال قصبے کو ’’سوئس لک‘‘ دے دی جب کہ ہماری سائیڈ سے غربت اور بے ترتیبی جھلکتی تھی‘ پاکستانی اور بھارتی دونوں اطراف پر دریا کے کنارے چٹانوں کاچھوٹا سا سلسلہ تھا‘یہ چٹانیں کشمیریوں کا ’’کمیونیکیشن نیٹ ورک‘‘ ہیں‘ پاکستان اور بھارت دونوں سائیڈز پر موبائل فون سروس نہیں چنانچہ عید اور شب رات جیسے تہواروں پر دونوں سائیڈوں کے کشمیری ان چٹانوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور اونچی آواز میں ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتے ہیں‘ یہ خط لکھ کر پتھر میں لپیٹ کر بھی ایک دوسرے کی طرف پھینکتے ہیں۔

دونوں طرف فوجی مورچے ہیں‘ فوجیں مورچوں سے ان لوگوں کی نگرانی کرتی ہیں‘ یہ انتہائی جذباتی جگہ ہے‘ یہاں ہر سال ایسے درجنوں واقعات پیش آتے ہیں جو سنگدل سے سنگدل انسان کو تڑپا دیتے ہیں‘ لوگ اپنے عزیزوں کو سامنے دیکھ کر تیز رفتاردریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں‘ یہاں کے لوگ ایک ماں اور اس کے دو بیٹوں کا قصہ سناتے ہیں‘ ماں مقبوضہ علاقے میں تھی اور بیٹے آزاد علاقے میں۔ یہ عید پر ایک دوسرے کو دیکھنے آئے‘ ماں نے بچوں کو دیکھا تو فرط جذبات میں دریا میں چھلانگ لگا دی‘بیٹے بھی بے تاب ہو گئے‘ وہ بھی پانی میں کود گئے اوریوں تینوں بہہ کر ماضی کا قصہ بن گئے‘ ٹیٹوال میں لکڑی کا ایک پل بھی ہے‘ یہ پل آدھا پاکستان میں ہے اور آدھا بھارت میں‘ درمیان میں سفید لکیر لگا کر اسے تقسیم کیا گیا ہے‘ دونوں حکومتیں پرمٹ دے کر ہر سال چند درجن کشمیریوں کو یہ پل پار کرنے کی اجازت دیتی ہیں‘ پرمٹ کا عمل بہت مشکل ہے‘ کشمیری اسے آسان دیکھنا چاہتے ہیں‘سڑک ٹیٹوال سے لوات تک لائین آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

ہم نے کھلی آنکھوں سے بھارتی فوجیوں کو مورچوں سے جھانکتے اور ایل او سی پر چہل قدمی کرتے دیکھا‘ بھارتی پوسٹیں بھی صاف نظر آتی ہیں‘ یہ سڑک 2003ء تک ناقابل استعمال تھی‘ دونوں طرف سے بھاری گولہ باری اور فائرنگ ہوتی تھی‘ مقامی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو چکی تھی‘ جنرل پرویز مشرف نے 2003ء میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر ایل او سی پر امن قائم کر دیا‘ نیلم میں امن ہوا‘ لوگ آزادانہ نقل و حرکت کرنے لگے‘ آج نیلم روڈ پر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے‘ مورچے موجود ہیں لیکن فائرنگ نہیں ہوتی‘ لوگ جنرل مشرف کو روزانہ ہزاروں دعائیں دیتے ہیں‘ عید کے دنوں میں چاروا‘ سجیت گڑھ‘ ہرپال‘ بجوات‘ شکرگڑھ اور چپراڑ کی ایل او سی پر لڑائی شروع ہو گئی‘ لڑائی کی خبریں نیلم پہنچیں تو لوگ پریشان ہو گئے‘ لوگ یہاں امن چاہتے ہیں‘ یہ پندرہ برس بعد علاقے میں سیٹل ہوئے ہیں‘ یہ دوبارہ اپنے گھر بار نہیں چھوڑنا چاہتے‘ لوگوں کا خیال ہے اگر لڑائی نہ رکی تو نیلم کا محاذ بھی ایکٹو ہو جائے گا اور اس سے نیلم ویلی کے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔

اب سوال یہ ہے بھارت ایل او سی پر چھیڑ چھاڑ کیوں کر رہا ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ نریندر مودی ہیں‘ بھارت میں پاکستان مخالف عناصر بھاری تعداد میں موجود ہیں‘ نریندر مودی ایل او سی ایکٹو کر کے ان کے ہیرو بن رہے ہیں‘ یہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر رہے ہیں‘ دوسری وجہ‘ ہماری فوج ضرب عضب میں مصروف ہے‘ پاکستانی طالبان کو بھارتی پشت پناہی حاصل ہے‘ فوج شمالی وزیرستان میں نوے فیصد کامیابی حاصل کر چکی ہے‘ بھارت پاکستان مخالف طاقتوں کو زندہ رکھنا چاہتا ہے چنانچہ اس نے پاک فوج کی توجہ بٹانے کے لیے مشرقی بارڈر ایکٹو کر دیا‘ ہمارے چند ناعاقبت اندیش لیڈر حکومت کو ٹارزن بننے کے مشورے دے رہے ہیں‘ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میاں نواز شریف ان لوگوں کے دباؤ میں نہیں آ رہے کیونکہ میاں نواز شریف کی طرف سے ایک جذباتی بیان کی دیر ہے اور پاک بھارت سرحد پر جنگ شروع ہو جائے گی۔

ہم اس کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان سے فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہو جائیں گے اور یوں ہمیں مغربی سرحد سے طالبان اور افغان ماریں گے اور مشرقی سرحد سے بھارت۔ انڈیا یہی چاہتا ہے‘ہم ایک بیان سے بھارت کا پورا منصوبہ کامیاب بنا دیں گے‘ وزیراعظم اور فوجی قیادت کو حالات کی نزاکت سمجھنی چاہیے‘ ہمیںجنگ کے بجائے جنگ بندی پر توجہ دینی چاہیے‘ ہمارا ضرب عضب پر فوکس رہنا چاہیے‘ ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو پھر ہم کبھی دہشت گردی کی جنگ سے باہر نہیں نکل سکیں گے اور آخری وجہ‘ بھارت پاکستان کو جمہوریت کے راستے پر چلتا نہیں دیکھنا چاہتا‘ بھارتی تھنک ٹینکس جانتے ہیں پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو گئی تو پاکستان ترقی کرے گا اور یہ بھارت کو قبول نہیں چنانچہ بھارت نے سیاسی مسائل کی شکار حکومت کے لیے نیا تنازعہ کھڑا کر دیا‘ وزیراعظم اب خاموش رہتے ہیں تو ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور یہ اگر بول پڑتے ہیں تو بھی ان کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا‘ نریندر مودی نے پاکستانی جمہوریت کے خلاف ایک جال بچھا دیا ہے‘ میاں نواز شریف کی ایک غلطی انھیں 12 اکتوبر 1999ء کی طرف لے جائے گی چنانچہ احتیاط لازم ہے کیونکہ لوکل دھرنے کو اب انٹرنیشنل پولیٹیکل سپورٹ بھی مل رہی ہے۔

میں واپس نیلم وادی کی طرف آتا ہوں‘ ٹیٹوال سے ہمارا اگلا پڑاؤ کیرن تھا‘کیرن ایک لائف ٹائم تجربہ ہے‘ پاکستان کے ہر باشعور شخص کو زندگی میں ایک بار کیرن ضرور جانا چاہیے‘ یہ پہاڑوں میں گھری ہوئی سرسبز اور شاداب وادی ہے‘ آپ کو چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑ گھیر لیتے ہیں‘ آپ دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہو جائیں‘ آپ کے بالکل سامنے دریا کے دوسرے کنارے مقبوضہ کشمیر ہے‘ بھارتی مورچے پتھر پھینکنے کے فاصلے پر ہیں‘ دریا کا ایک کنارہ پاکستان ہے اور دوسرا کنارہ بھارت (مقبوضہ کشمیر)۔ آپ کو دوسری طرف فصلیں بھی دکھائی دیتی ہیں‘ مکان بھی‘ مال مویشی بھی اور چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں بھی اور آپ کی ناک کے بالکل سامنے لکڑی کی خوبصورت مسجد بھی ہوگی۔

اذان ادھر ہوتی ہے اور نماز ادھر‘لوگ آواز وہاں سے لگاتے ہیں اور جواب ادھر سے آتا ہے‘ دریا آپ کے دائیں بازو گھومتا ہے‘ مقبوضہ علاقہ بھی دریا کے ساتھ دائیں گھوم کر آپ کو گھیر لیتا ہے‘ آپ خود کو نیم دائرے میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں‘ آپ کے سامنے اور دائیں جانب بھارت ہے اور پیچھے اور بائیں جانب پاکستان اور آپ وہاں یقین اور بے یقینی کے عالم میں پریشان کھڑے رہ جاتے ہیں اور میں بھی وہاں پریشان کھڑا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی آزاد کشمیر کہاں ہے اور مقبوضہ کشمیر کہاں ہے؟ میرے سامنے بھی فوجی تھے اور پیچھے بھی‘ مجھے محسوس ہوا مجھے سامنے سے بھی گولی ماری جا سکتی ہے اور پیچھے سے بھی‘ میں ہر لحاظ سے ’’ان دی لائین آف فائر‘‘ تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔