مگر انقلاب بہت ہے

طلعت حسین  پير 20 اکتوبر 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

کل جلسے میں بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے دوسرے قائدین زور سے بولے۔ چیخ کے بولے۔ جوش سے بولے۔ غصے سے بولے۔ دھیمے سے بولے اور للکار کے بولے۔ وہ تمام نعرے جو ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے لے کر آج تک سنے تھے، سب کے سب جلسہ گاہ میں ہر طرف گونجے۔ لوگ بھی تھے اور ذرایع ابلاغ بھی۔ (جلسوں میں لوگ کس طرح آتے ہیں، اب میں نے اس پر تجزیہ کرنا چھوڑ دیا ہے، بے فائدہ کوشش ہے، کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ حقیقت کیا ہے۔ جب ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہو کہ 20 کروڑ عوام اس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں اور یہ دعوی کر تا ہو کہ لوگ اپنے پیسے لگا کر بغیر بلوائے ان کی خوبصورت شکل اور شیریں باتیں سننے کے لیے آ رہے ہیں تو اس حالت میں تجزیہ یا حقیقت بیان نہ کرنا ہی اچھا ہے)۔ بلاول بھٹو نے سب پر خوب تنقید کی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں انھوں نے کہا کہ:

وزیر اعظم نواز شریف بتائیں کس نے انھیں اجازت دی کہ وہ پوری وفاقی حکومت کے وسائل دھرنا ختم کرنے پر لگا دیں۔ نواز شریف میں ضیاء ازم گھس گیا ہے، نواز شریف ضیاء ازم چھوڑیں بھٹو ازم اپنائیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ضیاء  کی پیداوار ہیں۔ ہمارا شیر کشکول بھرنے امریکا گیا تھا، بائیڈن کی تھپکی سے بلی بن کر واپس آ گیا‘ پنجاب میں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں‘ عوام صرف شو بازی کی اسکیموں کو گڈ گورننس نہیں مانتے‘ ہمیں دکھاوا نہیں آتا کہ عام بس کو میٹرو بنا کر عوام کو دھوکہ دیں‘ کل ایک میٹرو کو یہ لوگ جہاز بنا کر عوام کو بے وقوف بنائیں گے۔

جتنا خرچہ بھارت نے مریخ پر سیارہ بھیجنے کے لیے کیا، اس سے 3 گنا مسلم لیگ (ن) نے میٹرو پر لگا دیا۔ کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے۔ نواز شریف کو جعلی مینڈیٹ دے کر لایا جاتا ہے کہ خان کو اپوزیشن لیڈر بنایا جائے تا کہ بھٹو کے نظام کو درہم برہم کیا جائے۔ وزیر اعظم صاحب اس سے پہلے ملتان، سرگودھا، سیالکوٹ، منڈی بہائوالدین کے جیالوں کا احتساب شروع کر دیں لیکن شفافیت آپ کے لیے ضروری ہے۔

عمران خان کے بارے میں انھوں نے کچھ یوں فرمایا:

’”بزدلو، دھرنے کی ہیلمٹ سے منہ باہر نکالو اور جا کر خیبر پختونخوا کے عوام کی خدمت کرو۔ اگر طالبان سے ڈر لگتا ہے تو آئی ڈی پیز کی خبر لو، آپ تو 90 دن میں کرپشن، دہشت گردی ختم کر کے نیا پاکستان بنانے نکلے تھے، آپ نیا پاکستان کیا بناتے، آپ تو نیا خیبرپختونخوا بھی نہیں بنا سکے، ہم 37 سالہ سیاست میں امپائر کی انگلی پر نہیں ناچے۔ پاکستان تحریک انصاف نہیں بلکہ امپائر کے لیے انصاف ہے۔ وی آئی پی کے جہاز کا احتساب تو کر لیں کیا یہ سیاست ہے، سیاست سیکھنی ہو تو بھٹو ازم سے سیکھیں، پی ٹی آئی لاہور کی ایم کیو ایم بننا چاہتی ہے”۔‘

مستقبل کی اچھی تصویر پیش کرتے ہوئے انھوں نے یہ دعوے کیے۔

” کہ بی بی کا بیٹا آئے گا، روزگار لائے گا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے‘  کراچی کو دنیا کا عظیم شہر بنائیں گے، صرف بھٹو کا نظام‘ ہم ناامید نہیں ہیں کراچی کو یتیم نہیں چھوڑیں گے۔ کراچی بدلے گا۔ کراچی والو۔ 2018ء میں شفاف انتخابات ہوں گے تو کراچی کو حقیقی آزادی ملے گی اور یہاں بسنت کا سماں ہو گا۔

اس کے بعد آخر میں سیاسی یتیموں کو الوداع کہتے ہوئے بھٹو کے زندہ ہونے کا نعرہ لگایا اور اسی حفاظتی حصار میں واپس چلے گئے جس کی چھتری تلے وہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے تھے۔

مگر آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں پاکستان میں کسی چہرے پر آپ کو خوش مزاجی نظر نہیں آ رہی۔ نہ کہیں سے دودھ کی نہر نکلی ہے اور نہ شہد کی بارش نظر آئی۔ زور لگانے کے باوجود وہ ان تمام افکار میں کوئی اضافہ نہیں کر سکے جو ان کے سیاسی آبائو اجداد نے ملک کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے اس قوم کے لیے چھوڑے تھے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان سے عمر میں کہیں بڑے لیکن طعنوں، کچوکوں، دوسروں پر الزام لگانے اور تضحیکی جملے تراشنے میں ان کے برابر عمران خان نے اپنے مختصر ہوئے دھرنے کے سامنے جواباً تابڑ توڑ حملے کیے۔ عمران خان کے خطاب کا خلاصہ یہ تھا۔

” پیپلز پارٹی کے جلسے کا خرچہ ہمارے جلسوں سے کہیں زیادہ ہے، انھوں نے ہماری نقل کی ہے۔ بلاول اپنے والد آصف زرداری اور چچا نواز شریف سے اثاثے پوچھ لیں تو لیڈر مان لوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ بلاول نے اثاثوں کا پوچھا تو آصف زرداری کی نیند حرام ہو جائے گی۔ اگر بلاول اثاثے پوچھ لیں تو اپنے نانا کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نہ ہوتی تو عوام زرداری اور شریف خاندان کے غلام ہوتے۔ کراچی جلسے میں اندرون سندھ سے زبردستی لوگوں کو لایا گیا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح لوگوں کو لانے سے جلسے کامیاب نہیں ہوتے۔ لیڈر آگ کی بھٹی سے گزر کر بنتا ہے شارٹ کٹ سے نہیں۔ بلاول ابھی بچہ ہے اس کی باتوں کا کیا جواب دوں روٹی، کپڑا اور مکان لوگوں کو اس وقت ملے گا جب کرپشن ختم ہو گی۔ میں امید رکھتا ہوں کہ بلاول اپنے اثاثے بھی قوم کو بتائیں گے۔ بلاول کو پتہ ہو گا کہ جمہوریت اور بادشاہت میں کیا فرق ہے؟ جمہوریت میں عمران اپنے بیٹے سلمان خان کو لیڈر شپ نہیں دے سکتا، جمہوریت میں الیکشن ہوتے ہیں، بادشاہت میں اقتدار بیٹوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔۔۔ “۔

بلاول بھٹو کے خطاب اور عمران خان کے جواب سن لیں تو آپ جان جائیں گے کہ اس ملک میں اس وقت ہو کیا رہا ہے۔ یہ ہو رہا ہے کہ ہر کوئی نعروں سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس سے بڑا تاریخ ساز کردار پاکستان میں اس سے پہلے پیدا ہی نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو نے جو خواب چننے کی کوشش کی اس کو دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ جیسے ان کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہے جس کو وہ ہلاتے جائیں گے اور کرشمے از خود ہوتے چلے جائیں گے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں صرف ان کے وزیر اعظم بننے کی دیر ہے۔ اس کے بعد یہاں اور سوئزرلینڈ میں تمام فرق ختم ہو جائے گا اور حکومت؟ اس نے اپنے لیے فی الحال خاموشی کو چنا ہوا ہے۔ وہ فی الحال اسی میں خوش ہے کہ اس کی طاقت پر ہونے والا حملہ پسپائی کا شکار ہے اور وہ وقتی طور پر سانس لینے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ لیکن ان کی طرف سے اٹھنے والی آوازیں سنیں تو وہ بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جو ہم جلسوں اور دھرنوں میں سن رہے ہیں۔ مگر حقائق تو وہی ہیں جو ہیں ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے یہ ختم نہیں ہوں گے۔

بلاول بھٹو ملک میں انقلاب برپا کرنے کی بات کرنے سے پہلے سندھ کے حالات اور ان سے متعلق چھپے ہوئے اعداد و شمار کی روداد پڑھ لیتے۔ کسی دورے کی طرف انگلی اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ سامنے کھڑے لوگوں سے معذرت کرکے تقریر کا آغاز کرتے۔ اگر سندھ کو اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بدترین حالات کا شکار ہونے سے نہیں روک سکے تو یہ ملک تو بہت بڑا ہے۔ اس کو ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے حوالے کر کے کیا کر پائیں گے؟ ایک مرتبہ پھر راجا پرویز اشرف یا یوسف رضا گیلانی کو لائیں گے یا سندھ میں کسی اور کو۔ سندھ میں قائم علی شاہ کو پھر وزیر اعلی بنائیں گے ، اگر یہ نہیں تو کیا کریں گے۔

جہاں تک رہی عمران خان کی بات تو وہ نسبتاً نئے ہونے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ان کا حق ہے۔ انھوں نے اس ملک میں پھیلی ہوئی وسیع و عریض مایوسی، گہرے غصے اور اپنے مخالفین کی کم عقلیوں کو اپنی شخصیاتی مقناطیسیت کے توسط اپنے وعدوں کے حق میں استعمال کیا ہے۔ جس پر وہ بجا طور پر فخر بھی کر سکتے ہیں۔ اور یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ دونوں جماعتوں کے مقابلے میں کئی بہتر ریکارڈ رکھتے ہیں۔ چونکہ انھوں نے ابھی کھیلنا شروع ہی کیا ہے۔

اس وجہ سے ان کے بلے بازی کی اوسط بہتر نظر آتی ہے۔ لیکن جس جنت کا ذکر وہ کرتے ہیں میں نے اس کو اٹک کے پار چولستان سے لے کر بنوں تک تلاش کرنے کی بڑی کوشش کی مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔ ہاں اس تلاش میں جب میں پشاور پہنچا تو ڈیڑھ کلو میٹر کا فاصلہ میں نے 55 منٹ میں طے کیا۔ جس جنت میں ٹریفک کا یہ حال ہو اس میں دوسری جگہوں کا سفر کرنا ایک ایسی آزمائش ہے جس میں سے گزرنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے۔ ویسے ایشیئن ڈیویلپمنٹ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ شایع ہوئی ہے جس میں ملک کے چاروں صوبوں میں حکومت کی کارکردگی کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ اس کو پڑھ لیں کہیں پر خود سے سفر کر کے سچ جاننے کے لیے کوئی خاص تگ و دو نہیں کرنا پڑے گی۔

وفاقی حکومت کا حال میں نے پہلے بتلا دیا ہے۔ وہ تو جیسی ہے سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں آپ کو کس پر یقین کرنا ہے اور کس پر نہیں، اس مخمصے کا جواب آپ کو جی ٹی روڑ پر چلتے ہوئے کسی بھی ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا مل جائے گا ” پسند اپنی اپنی۔ نصیب اپنا اپنا”۔

آپ جس کو چاہیں پسند کر لیں ہمارا پیارا ملک انسانی ترقی کی سیڑھی پر نیپال سے نیچے ہونے کے باوجود ہر قسم کے انقلاب کی زد میں آ چکا ہے۔ “عمرانی انقلاب، بلاولی انقلاب، شریفی انقلاب، مشرفی انقلاب “اور محترم سراج الحق کے بقول “انقلاب”۔ ملک کی حالت غیر ہے، مگر انقلاب بہت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔