میں لکھوں تو کس کے لیے؟…

رضوان گورایا  پير 20 اکتوبر 2014

ایک مشہور و معروف گانے کے ’’بول‘‘ سے میں آج اپنے کالم کا آغاز کروں گا ’’میں کپڑے بدل کر جائوں کہاں! میں بال بنائوں کس کے لیے!‘‘ یہ گانا ایک عاشق و معشوق کے مابین گہرے تعلق واسطے کا تعین کرتا ہے۔ عاشق کی مثال اس پروانے کی مانند ہے جس کا جینا مرنا شمع (معشوق) پر منحصر ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا گانے میں عاشق اپنے جذبات و احساسات کا برملا اظہار کرتا ہے۔ جب عاشق کے پاس معشوق ہی نہیں تو وہ کس کے لیے کپڑے پہنے اور بال سنوارے؟ انڈین فلم ’’دیوداس‘‘ میں بھی کچھ ایسا ہی منظر دکھایا گیا ہے کہ معشوق سے دوری کے سبب عاشق بالآخر اپنے ہی معشوق کی چوکھٹ پر دم توڑ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی ایسے واقعات کی نظیر نہیں ملتی، کوئی اپنے معشوق سے دوری یا علیحدگی کے باعث خودکشی کرلیتا ہے تو کوئی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے۔

ہمارے وطن عزیز کا تو یہ عالم ہے کہ یہاں رعایا روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول کی خاطر اپنی تمام زندگی وقف کردیتے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بنیادی معاشی و انسانی حقوق نہ ملنے پر بھی کافی بڑی تعداد میں لوگ خودکشیاں کرلیتے ہیں۔ ’’عشق‘‘ ایک انمول خزانے کی مانند ہے۔ بھوکا پیٹ تو صرف روٹی سے دل لگاتا ہے۔ ننگا جسم کپڑے اور بے گھر اپنے ذاتی گھر سے عشق کرتا ہے۔

عشق کے کئی درجات ہیں کسی کو چرند و پرند سے لاگو عشق ہوتا ہے، کسی کو اپنے Life Style سے پیار ہوتا ہے، کسی کو اچھے کھانے کا اتنا جوش و عشق ہوتا ہے کہ وہ Food Lover بن جاتا ہے، کسی کو مال و دولت سے اتنا لگاؤ ہوتا ہے کہ وہ دولت کے حصول کی خاطر تمام حدود پھلانگ لیتا ہے اور اتنا امیر ہوجاتا ہے کہ وہ حلال و حرام کا فرق بھول جاتا ہے اور وقت کا فرعون بن جاتا ہے۔

کسی نہ کسی روپ میں آج ہر انسان عاشق بنا پھرتا ہے؟ لیکن تمام عشق کے درجات میں سب سے عالی و افضل درجہ ’’عشق خداوندی‘‘ ہے اور جب کوئی انسان اس عشق کو پالیتا ہے تو وہ سب کچھ پالیتا ہے، تب ہی تو وقت کے بادشاہ بے چین اور ڈر کے سائے میں رہتے ہیں، نہ دن میں چین نہ رات میں سکون، اس کے برعکس فقیر و درویش ہر وقت سکون میں رہتے ہیں کیوں کہ وہ ’’چمک‘‘ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ’’رب راضی تے سب راضی‘‘۔ کاش! ہمیں بھی حقیقی عشق ’’عشق خداوندی‘‘ حاصل ہوجائے تو ہمارے تمام مسائل حل ہوکر وسائل میں بدل جائیں۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ کا مشہور شعر ذہن میں آرہا ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

میں لکھوں تو کس کے لیے، کا عنوان میں نے کافی مشاہدے و تحقیق کے بعد سوچا۔ جس طرح معشوق سے دوری کے غم میں عاشق کپڑے و بال نہیں بدلتا، اسی طرح جب لکھاری کی بات قاری کو سمجھ نہ آئے تو کسی خاص مکاں و زماں میں ہر لکھاری سوچتا ہے کہ وہ لکھے تو کس کے لیے؟ آج کے جدید دور میں اطلاعات و معلومات تک رسائی بے حد آسان ہے، سائنسی ایجادات نے آج ہر شے کو Black & White کردیا ہے، ہر روز لکھاری کروڑوں الفاظ بولتے اور لکھتے ہیں اور ہزاروں لوگ ان کے الفاظ سے لطف اندوز ہوتے ہیں بس!!!

چوں کہ ’’سیاست گردوں‘‘ معاف کیجیے گا وہ سیاست دانوں نے جب سے ہمارا ملک پیدا ہوا ہے اسے ”I.C.U” مطلب نازک دور میں رکھا ہوا ہے تو میں نے سوچا میں بھی نازک دور میں اپنی عام سے رائے کا اظہار کر ڈالوں، میں کیا، میرے الفاظ کیا، پسند آئیں تو دعا کریں نہ پسند آنے کی صورت میں میرے لیے دوا کا بندوبست۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارا اپنا ملک جسے پاکستان کا نام دیا گیا یعنی پاک لوگوں کی سرزمین، یعنی کہ پاک سیاست دان، پاک عدالتیں، پاک درسگاہیں، پاک فوج، پاک میڈیا، پاک پولیس، پاک استاد و شاگرد، پاک اسمبلی، پاک دھرنیاں و آزادی انقلاب۔

Small March یعنی کہ سب پاک تو بھائی یہ ناپاک لوگ کون ہیں جن کی بدولت ہم پاکی سے آج ناپاکی کے عالم میں ہیں؟ آج ہر کوئی حقوق، آئین، قانون کی بات کرتا ہے، کیا کسی ایک نے کبھی وطن عزیز کی مکمل ’’معاشی آزادی‘‘ کی بات کی نہیں۔

میں کسی پر تنقید نہیں کررہا ہوں لیکن تمام ’’سیاست گردوں‘‘ سے ایک سوال ضرور کروںگا جنھوں نے ہمارے ’’معاشی حقوق‘‘ پر کھلم کھلا ڈاکہ مارا ہوا ہے، جب آپ بات کرتے ہیں سب سے پہلے پاکستان، تو کیا آپ نے اس پر عمل بھی کیا کبھی ؟ جب آپ بولتے ہیں روٹی، کپڑا و مکان تو کیا آپ نے یہ سب کچھ دیا عوام الناس کو؟ جب آپ نے نعرہ لگایا ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ آپ نے پھر قرض اتارا یا اور زیادہ قرضوں کے نیچے دبا دیا اس ملت کو؟ آج ہر ’’سیاست گرد‘‘ ’’دہشت گرد‘‘ ملک کی بات کرتا پھرتا ہے۔

1973 کا آئین آج اتنا مقدس بنا دیاگیا ہے جیسے کہ کوئی مقدس کتاب ہو؟ آج لوگ کہتے ہیں جاگیردار خراب، سرمایہ دار غلط، سردار و وڈیرے ظالم، جنرلز غدار، تو آج میں اپنے تمام سیاست دانوں سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ کیا آپ In Writing 1973 کے آئین میں یہ شق ڈال سکتے ہیں کہ آج کے بعد کوئی بھی جاگیردار، سرمایہ دار، اعلیٰ بیوروکریٹ، اسمبلی یا پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ آپ کریںگے اس بات پر عمل؟ ہے اتنی اخلاق جرأت آپ کے پاس؟ جواب آئے گا نہیں! اب میں کیا لکھوں اور کس کے لیے لکھوں؟

کیا آج عوام الناس میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اپنے ہر دل عزیز سیاست گردوں سے اپنے معاشی حقوق لے کر وطن عزیز کو ایک مکمل معاشی آزاد اسلامی فلاحی ریاست بنا سکیں۔

کیا اب بھی میں لکھوں یا نہ لکھوں بظاہر زندہ قوم کہنے سے قومیں زندہ نہیں ہواکرتیں اس کے لیے ایک زندہ روح و احساس کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔

حالات وواقعات کے خم جبر نے آج اس موڑ پر کھڑا کیا

مڑ کر جب دیکھا نہ خدا میرا نہ صنم رہا میرا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔