انٹربینک میں ڈالر کی قدر ایک بار پھر 103 روپے سے تجاوز

بزنس رپورٹر  منگل 21 اکتوبر 2014
سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال کی وجہ سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ میں گزشتہ 3ماہ کے دوران مجموعی طور پر5 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔  فوٹو: اے ایف پی/فائل

سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال کی وجہ سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ میں گزشتہ 3ماہ کے دوران مجموعی طور پر5 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

کراچی: دھرنوں اور سیلاب کے بعد امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے سبب گزشتہ 3ماہ سے اوپن مارکیٹ کی نسبت انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر زائد دیکھی جا رہی ہے اور ایسا تاریخ میں پہلا بار ہوا ہے۔

انٹربینک مارکیٹ میں پیر کوڈالر کی قدر7 پیسے کے اضافے سے 103.05روپے جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر30 پیسے بڑھ کر103روپے کی سطح پر آگئی ہے۔  کرنسی مارکیٹ کے باخبرذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال کی وجہ سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ میں گزشتہ 3ماہ کے دوران مجموعی طور پر5 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے اور جاری بحران کی وجہ سے انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی طلب بدستور غالب ہے حالانکہ اگست اور ستمبر کے2 مہینوں میں مقامی ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے مجموعی طور پر60 کروڑ ڈالر فاضل انٹربینک مارکیٹ کو سرینڈر کیے گئے۔

اس ضمن میں ایکس چینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے بتایا کہ ڈالر کے مقابل پاکستانی روپے کی بے قدری کی بنیادی وجہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر بڑھتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری بھی گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے متاثر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں کسی قسم کا کوئی بحران نہیں ہے بلکہ صرف بیرونی ممالک میں تعلیم، صحت کے لیے یا پھر عازمین عمرہ کی جانب سے ڈالر کی خریداری کی جارہی ہے جن کی شرح بمشکل 5 فیصد ہے، یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے ذخائر فاضل ہوگئے ہیں اور یہی ڈالر ہم انٹربینک مارکیٹ کو سرینڈر کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اضافے کے اثرات اوپن مارکیٹ پر بھی مرتب ہوتے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں مصنوعی اجارہ داری قائم کرنے والوں کا احاطہ کیا جائے اور ڈالر کی ٹرانزیکشنز کی سخت مانیٹرنگ کی جائے تاکہ ڈالر کی قدر کو کنٹرول کیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔