ایبولا وائرس لائبیریا میں کمائی کا ذریعہ بن گیا

عبدالریحان  منگل 21 اکتوبر 2014
سرکاری اہل کار رشوت لے کر مُردوں کے جعلی ’ایبولاـ فری‘ سرٹیفکیٹ بنانے لگے۔ فوٹو: فائل

سرکاری اہل کار رشوت لے کر مُردوں کے جعلی ’ایبولاـ فری‘ سرٹیفکیٹ بنانے لگے۔ فوٹو: فائل

مغربی افریقا ان دنوں ایبولا کی صورت میں دورحاضر کی مہلک ترین وبا کی لپیٹ میں ہے۔ گنی، سیرالیون بالخصوص لائبیریا میں ایبولا وائرس نے تباہی مچادی ہے۔

تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق 15 اکتوبر تک ان ممالک میں ایبولا کے 8998 کیسز سامنے آئے۔ ان میں سے 4493 افراد مہلک وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے تھے۔ ایبولا وائرس 1976ء میں دریافت ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک یہ وائرس وبا کی صورت میں کئی بار پھیل چکا ہے۔ مگر موجودہ حملہ اس وائرس کا بدترین حملہ ہے جس کی زد میں مغربی افریقا کے علاوہ امریکا اور کئی یورپی ممالک بھی آچکے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے اس وبا کے پھیلاؤ میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔

اس وقت تک ہونے والی تحقیق کے مطابق ایبولا کا وائرس ایڈز کے وائرس کی طرح ، متاثرہ شخص کے خون یا اس کے جسم سے نکلنے والے مائعات کے ذریعے دوسرے شخص کو منتقل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس متاثرہ اشیاء جیسے سرنج اور سوئیوں کے ذریعے بھی پھیلتا ہے۔ سائنس داں اس وبا کا توڑ دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر ان کی کوششیں اب تک بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔ اور ایبولا کا دائرہ وسیع ہوتاجارہا ہے۔ ابتدا میں یہ وبا صرف مغربی افریقا تک محدود تھی مگر اب امریکا، نائجیریا اور اسپین میں بھی اس سے متاثرہ مریض سامنے آچکے ہیں۔

ایبولا سے صحت یاب ہونے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے کی نعش کو مخصوص طریقے سے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے متاثرہ ممالک میں وزارت صحت کے علاوہ ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ’’ ڈاکٹرز وِد آؤٹ باردرز ‘‘ کی ٹیمیں بھی کام کررہی ہیں۔ ٹیم کے اراکین ایبولا سے متاثرہ شخص کی لاش کو مخصوص تھیلے میں ڈال کر ٹھکانے لگادیتے ہیں تاکہ لاش سے وائرس کے پھیلنے کا خطرہ نہ رہے۔

ایبولا وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والے فرد کی لاش اصرار کے باوجود لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی۔ چناں چہ اب انھوں نے اپنے پیاروں کی، اپنی مذہبی رسومات کے مطابق تدفین کرنے کے لیے رشوت کا سہارا لے لیا ہے۔ امریکی روزنامے ’’ وال اسٹریٹ جنرل‘‘ کی رپورٹ کے مطابق وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں اکٹھی کرنے والی ٹیمیں لواحقین سے رشوت وصول کرکے یہ سرٹیفکیٹ جاری کردیتی ہیں کہ ان کا مریض کسی اور بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے۔

اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر لاش لواحقین کے حوالے کردی جاتی ہے جسے وہ اپنی رسومات کے مطابق دفن کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ لائبیریا میں زوروشور سے جاری ہے جہاں ایبولا کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کو وزارت صحت سے متعلق اداروں اور تنظمیوں کے اہل کاروں نے کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔

لائبیریا کے دارالحکومت مونرویا کے مضافاتی علاقے میں کام کرنے والے کمیونٹی ورکر ونسنٹ شاؤنزے نے مذکورہ روزنامے کو بتایا،’’  ٹیم کے اہل کار مرنے والے کے اہل خانہ سے کہتے ہیں وہ انھیں وزارت صحت کی جانب سے سرٹیفکیٹ بناکر دے سکتے ہیں کہ ان کا رشتے دار ایبولا سے ہلاک نہیں ہوا۔ کبھی وہ 40 اور کبھی 50 امریکی ڈالر کے مساوی رقم کے عوض سرٹیفکیٹ بناکر دیتے ہیں۔ جس کے بعد لواحقین اپنے عزیز کی لاش لے جاکر اپنے طریقے کے مطابق دفن کردیتے ہیں۔‘‘

لائبرین حکومت کے وزیر اطلاعات لیوس براؤن کے مطابق ان کے دفتر کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ہیلتھ ورکر میت کے ’ ایبولا فری ‘ ہونے کے سرٹیفکیٹ بناکردے رہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

رشوت خوری کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبولا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہونے کا سبب شائد یہی ہے۔ ’’ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘‘ کی اہل کار ایگنس وین ڈر ویلڈے ایبولا کے ہلاک شدگان کی لاشیں اکٹھی کرنے والی ٹیم کی نگران ہیں، کہتی ہیں،’’ ہمیں تدفین کے لیے لوگوں کی جانب سے اتنی فون کالز موصول نہیں ہورہیں جتنی میرے خیال میں ہونی چاہییں۔‘‘ وین ڈر ویلڈے کا کہا کہ وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ لاشں ٹھکانے والی ٹیمیں رشوت وصول کررہی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس عمل سے ایبولا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔